میری کہانی

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

وزیر آباد میں گھروں میں ہینڈ پمپ لگے ہوئے تھے۔ یہاں کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا یخ اور سردیوں میں’’کوسا کوسا‘‘ ہوتا تھا چنانچہ گرمیوں میں نہاتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی اور سردیوں میں’’ٹکور‘‘ کا احساس ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی چنانچہ کسی گھر میں بھی ریفریجریٹر، ائیرکنڈیشنر یا اس طرح کی دوسری چیزیں موجود نہیں تھیں۔ ابھی ٹیلی وژن، مائیکروویو اوون، کمپیوٹر اور عہد حاضر کی بہت سی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں چنانچہ گھر ان سے بھی خالی تھے۔ شام ہوتے ہی گھروں میں لالٹینیں جل اٹھتیں ، کسی کو دوسرے کمرے میں جانا ہوتا تو وہ لالٹین ہاتھ میں پکڑے اسی کی مدھم روشنی میں اپنا’’سفر‘‘ طے کرتا۔ اس کی واپسی تک باقی اہل خانہ اندھیرے میں بیٹھے رہتے، گھر کا کوئی شرارتی فرد خوفناک آواز نکال کر سب کو ڈرانے کی کوشش کرتا اور اصلیت ظاہر ہونے پر گھر میں قہقہے گونجنے لگتے۔ کمرے کی چھتوں پر جہازی سائز کے کپڑے کے پنکھے لٹکے ہوتے تھے ، گرمیوں کی دوپہر کو کوئی ایک فرد ایک کونے میں بیٹھ کر اس پنکھے کی رسی کو کھینچتا رہتا ، جس سے ہوا سارے کمرے میں پھیل جاتی اور یوں پنکھا کھینچتے کھینچتے وہ بھی دوسرے افراد خانہ کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے سوجاتا!۔ اس دور کے امیر آدمی کی ایک نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ سواریوں والے تانگے کی بجائے سالم تانگے میں بیٹھتا تھا ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پورے شہر میں صرف دو کاریں تھیں،ایک ثمن والے راجہ عبداللہ کی اور دوسری خواجہ سجاد نبی کی! مگر یہ دونوں کاریں شہر میں کم کم داخل ہوتی تھیں کیونکہ یہ دونوں گھر شہر سے ذرا ہٹ کر تھے چنانچہ کسی کو اس حوالے سے بھی کوئی احساس کمتری نہیں تھا، ان دو متمول گھرانوں کے علاوہ کچھ اور گھرانے بھی خوشحال سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک قائد اعظم کے سیکرٹری خواجہ محمد شریف طوسی اور دوسرا گجرات پنجاب بس سروس والے سلطان میر کا گھرانہ تھا لیکن اگر سچ پوچھیں تو یہ وہ شہر تھا کہ جس میں نہ کوئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب، کیونکہ سب اس نوزائیدہ اسلامی مملکت پاکستان کے شہری تھے جن کے دلوں اور عمل میں اپنے نئے وطن کی تعمیر کا جذبہ’’ہلارے‘‘ لیتا نظر آتا تھا۔

میری کہانی!

جس وزیر آباد کی میں بات کررہا ہوں اس وزیرآباد میں مامتا ابھی دودھ کے ڈبوں میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ مائیں اپنے لاڈلوں کو اپنا دودھ پلاتی تھیں، اکثر گھروں میں گندم پیسنے والی چھوٹی سی چکی ہوتی تھی جو ہاتھ سے چلانا ہوتی تھی اس پر خاصا زور صرف ہوتا تھا، یہ ڈیوٹی بھی خواتین انجام دیتیں، گھروں میں گرائنڈر نہیں ہوتے تھے (چٹو وٹا) ہوتا تھا جس میں مصالحے ہاون دستے سے پیسے جاتے تھے، یہ گیس والے چولہے بھی ان دنوں کہاں تھے ’’انگیٹھی‘‘ میں لکڑی کا برادہ ٹھونس کر بھرا جاتا اور پھر اس پر کھانا پکایا جاتا، تیل کے چولہے جنہیں ’’اسٹوو‘‘ کہا جاتا تھا، بھی استعمال میں آتے تھے نیز لکڑیاں بھی جلائی جاتی تھیں، واشنگ مشین کا بھی کوئی تصور نہیں تھا ڈنڈے مار مار کر کپڑے دھوئے جاتے تھے۔ یہ ڈنڈا خاصی کثیر الاستعمال چیز تھی جس سے مائیں بچوں کی پٹائی بھی کرتی تھیں۔ بچوں کی پٹائی کیلئےچمٹا بھی خاصا مفید آلہ سمجھا جاتا تھا اس کے علاوہ چمٹے سے دہکتے چولہے میں کوئلہ پکڑنے کا کام بھی لیا جاتا، عالم لوہار نے اسے آلہ موسیقی میں بدل دیا۔ چولہے کے ساتھ ایک اور ضروری آئٹم ’’پھونکنی‘‘ بھی تھی جب آگ بھجنے لگتی تو پھونکنی کے ایک سرے پر منہ رکھ کر زور سے پھونک ماری جاتی۔ پھونک مارنے والے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ کیونکہ گیلی لکڑیوں کا دھواں سیدھا اس کی آنکھوں کو پڑتا۔ فریج کی جگہ گھروں میں ’’چھیکو‘‘ ہوتا تھا۔ لوہے کا بنا ہوا یہ بڑا سا ہوادار پیالہ کسی اونچی جگہ پر لٹکا دیا جاتا تاکہ اس میں دھری ہوئی چیزیں تازہ رہیں۔ اس کے علاوہ صحن میں ’’ڈولی‘‘ بھی ہوتی تھی اسے آپ چھوٹی سی الماری کہہ لیں جس میں ہوا کے لئے جالیاں لگائی جاتی تھیں۔ اس میں سبزی وغیرہ رکھی جاتی تھی ۔اس وقت تک ٹیپ ریکارڈر اور ڈیک وغیرہ بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ بس گراموفون ہوتا تھا اس سے استفادہ کیلئے ’’زور بازو‘‘ کی ضرورت پڑتی تھی۔ جب گانے والے کی آواز کم ہو کر ’’چوں چوں چاں چاں‘‘ میں بدلنے لگتی، آپریٹ کرنے والے کو پوری قوت سے اس کا ہینڈل گھمانا پڑتا۔ یوں گانے والے سے زیادہ آپریٹ کرنے والے کا زور لگتا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے ہم بچے اسکول سے دوپہر کو آتے اور کھانا کھا کر سو جاتے اس کے بعد کچھ دیر اسکول کا کام کرتے پھر کھیلنے کیلئے نکل جاتے۔ والدہ اور بہنیں اس دوران گھر کا کام کاج نمٹاتیں اور یہ سب کچھ ہنستے کھیلتے ہوتا۔ سردیوں کی راتیں بہت مزے کی ہوتی تھیں۔ رات کو ہم سب اہل خانہ ’’ہال کمرے‘‘ میں جمع ہو جاتے ان دنوں سردی بہت زیادہ پڑتی تھی ہم امرتسر سے تازہ تازہ کشمیری کلچر ساتھ لائے تھے چنانچہ سماوار میں کشمیری چائے پک رہی ہوتی اور ہم اپنی اپنی ’’کانگڑی‘‘ پائوں کے درمیان میں رکھے لحاف گھٹنوں تک کھینچ کر بیٹھ جاتے کبھی کبھی کسی کی بے احتیاطی سے ’’کانگڑی‘‘ میں سے دہکتے ہوئے شعلے کے باہر گرنے یا کانگڑی اور لحاف کے درمیان فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے آگ بھی لگ جاتی لیکن اسے ’’پارٹ آف دی گیم‘‘ سمجھا جاتا۔ کشمیری نمکین چائے کے ساتھ ’’کھنڈ کلچے‘‘ کھاتے ہوئے کسی کی نقلیں اتاری جاتیں۔ کسی لطیفے پر قہقہے لگتے۔ ہماری یہ محفل ’’کھلی کچہری‘‘ کی حیثیت بھی رکھتی تھیں کہ اس میں اہل خانہ میں سے کسی کے طرز عمل کی شکایت بھی کی جاتی جس پر فوری کارروائی عمل میں آتی۔ گرمیوں میں ہم بچوں کا پسندیدہ کھیل ’’لکن میٹی‘‘ تھا جو عموماً ہم رات کو کھیلتے تھے اس میں محلے بھر کے لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں دس بارہ سال تک ہوتی تھیں شریک ہوتے، کسی کو ایک دوسرے کی جنس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔

ماہ رمضان میں وزیر آباد میں بہت رونق ہوتی ، سحری کے وقت پورا شہر جاگ رہا ہوتا تھا۔ بازاروں میں آدھی رات پر بھی دن کا گمان گزرتا تھا، پورے شہر میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں کوئی روزہ دار نہ ہو۔ دن کے اوقات میں معمول کا کاروبار جاری رہتا۔ چائے اور کھانے پینے کی دکانیں بھی کھلی ہوتیں۔ بس آگے پردہ ڈال دیا جاتا روزہ دار ان ریستورانوں کے قریب سے پوری سہولت سے گزرتے تھے اور کسی کا روزہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ افطاری کا اعلان شہر کی مسجدوں میں رکھی ’’نوبت‘‘ بجانے سے کیا جاتا، مسجدیں روزہ افطار کرنے والوں اور نمازیوں سے بھری ہوتیں۔ لوگ ڈھیروں کے حساب سے اشیائے خورونوش مسجدوں میں بھیجتے تھے جس سے محلے کے تمام غیر روزہ دار بچے پورے خشوع و خضوع سے مستفید ہوتے۔ (جاری ہے)

Back to top button