مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے سے پاک بھارت دشمنی کم کیوں نہیں ہو گی؟
انڈیا میں عام انتخابات کے بعد اب آنے والی حکومت کا خاکہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ نریندر مودی حکومت بنانے کا اعلان کر چکے ہیں اور حکومت سازی کی لیے بی جے پی کی حلیف پارٹیاں اور ان کے مخالفین پر مشتمل انڈیا الائنس (انڈیا) اس وقت جوڑ توڑ اور مشاورت کے مرحلے میں ہیں۔
بھارت میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والی انتخابی مہم میں پاکستان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ خاص طور سے نریندر مودی نے متعد بار پاکستان کو نشانہ بنایا۔ ریاست گجرات میں ایک جلسے میں انھوں نے اپنے سیاسی مخالف راہل گاندھی اور ان کی پارٹی پر پاکستان نواز ہونے کا الزام لگایا اور جلسے میں آئے اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے سنا ہوگا کہ اب پاکستانی لیڈرز کانگریس کی جیت کے لیے دعا کررہے ہیں۔‘’پاکستان شہزادے یعنی راہل گاندھی کو انڈیا کا وزیراعظم بنوانا چاہتا ہے۔ پاکستان اور گانگریس کی شراکت اب پوری طرح بے نقاب ہو چکی۔‘
یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ سنہ 2019 میں بھی نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا انتخابی بیانیہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان مخالف جذبات بھڑکا کر کھڑا کیا تھا۔ اس بار سرحد پر تو امن سکون رہا لیکن پاکستان پر لفظی حملے ہوتے رہے۔اس سب کے باوجود پاکستان میں انڈین انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین اس بارے میں ہلکی پھلکی ٹویٹس کرتے رہے لیکن اسے کسی بڑے ایشو کے طور پر زیر بحث نہیں لایا گیا۔چونکہ پاکستان میں روایتی طور پر انڈین سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھی جاتی اور نہ ہی عام لوگوں کو وہاں کے سیاسی خدوخال سے زیادہ واقفیت ہے اس لیے پولنگ کے آخری مرحلے تک جب بھی ہماری عام لوگوں سے بات ہوئی تو ان کے ذہنوں میں صرف اس بات کو لے کر خدشات تھے کہ اگر انڈیا میں ایک بار پھر بی جے پی سرکار بنی تو وہاں پر موجود مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوگا؟تاہم چار جون کو جب الیکشن نتائج سامنے آئے اور عمومی اندازوں اور ایگزٹ پولز کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کو توقع سے کافی کم نشستیں ملیں تو پاکستان میں میڈیا اور لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوئی اور ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے مودی کا ’چار سو پار‘ کا خواب چکنا چور ہونے کی ہیڈلائنز لگائیں اور مودی کے انتحابی مخالفین کی مزاحمت اور کامیابی پر تجزیے اور تبصرے ہوتے رہے۔
عدت نکاح کیس : سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ملتوی
سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے ان نتائج پر رائے دی۔ کئی پاکستانی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پاکستان اور انڈیا کے انتخابات کا موازنہ کرتے رہے۔روایتی میڈیا پر تجزیوں اور تبصروں کا مرکز مودی کی مسلسل تیسری حکومت میں انڈین مسلمانوں کے حوالے سے تحفظات پر رہا۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی الیکشن کے نتائج کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ عوامی حلقوں کی طرح خارجہ پالیسی کے حلقوں میں بھی یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کم مارجن سے جیتنے کے باوجود اور داخلی طور پر سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود اپنی تیسری وزارت عظمیٰ کے دوران بھی مودی سرکار سے پاکستان کے حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملک اس وقت ایک سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر انڈیا کا رویہ انتہائی غیرلچکدار ہے۔اس ماحول میں پاکستان میں توقع یہی ہے کہ بی جے پی سرکار اپنی پاکستان مخالف پوزیشن کو برقرار رکھے گی بلکہ اس بات کا ڈر رہے گا کہ اس انتخابی شکست کے بعد وہ پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا کر اپنے لیے عوامی حمایت میں اضافہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ایسی صورت میں کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ طاس معاہدے جیسے معاملات پر درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس وقت انڈیا میں ایک سیاسی اور سٹریٹجک ہم آہنگی ہے کہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرنے میں کوئی سیاسی یا اقتصادی فائدہ نہیں۔
مبصرین کے مطابق انڈیا کے سابق وزیردفاع اور نریندر مودی کے بہت قریب سمجھے جانے والے راج ناتھ سنگھ ’پاکستان کو گھر میں گھس کر مارنے‘ کی بات کر چکے ہیں۔یہی بی جے پی کی پالیسی ہے جسے ان کے رہنما انتخابی بیانیے میں بھی دہراتے رہے ہیں۔ اس لیے مستقبل میں بھی بی جے پی سرکار کی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی جارحانہ پالیسی ہی جاری رہنے کا امکان ہے۔
مبصرین کے مطابق انڈیا کی جانب سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور پاکستان دشمن مسلح گروہوں کی خفیہ مدد کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ انڈین ہینڈلرز کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ ان واقعات پر پاکستان کو کافی تشویش ہے۔ 30 ستمبر سے پہلے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ریاستی انتخابات ہونے تک پاکستان کو یہ خدشہ بھی رہے گا کہ اسے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی دہشتگرد کارروائی میں ملوث کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر وہاں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہوا تو مودی سرکار پاکستان کو اس میں گھسیٹ لے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ’جب تک پاکستان پر تنقید بی جے پی کو سیاسی فائدہ دیتی رہے گی تعلقات کے معمول پر آنے کی سوچ صرف خواہش ہی رہے گی تاہم ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کشیدگی کم کرنے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی اور کسی مشترکہ دوست کی مدد سے رابطے بہتر کرنے کے لیے گنجائش ضرور رکھے گا۔‘اس حوالے سے پاکستان کی پالیسی ’ویٹ اینڈ واچ‘ کی ہو گی۔ ’وہ انتظار کرے گا کہ دہلی سے کیسے اشارے ملتے ہیں۔ اسی کے مطابق پاکستان حکمت عملی اختیار کرے گا۔‘تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نریندر مودی نے گذشتہ دس برس میں پاکستان مخالف جذبات کو اتنا بھڑکا دیا ہے کہ فی الحال بی جے پی اور اس کا انتخابی اتحاد تو کیا کوئی بھی پارٹی پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔