مسلمانوں کے دشمن نریندرا مودی کے بھگوان بننے کا خواب کیسے ٹوٹا؟
بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلمانوں کے دشمن وزیراعظم نریندر مودی کا بھگوان بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار محمد حنیف بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ چائے کی ایک چھوٹے سے سٹال سے وزارت عظمی تک پہنچنے والے مودی نے اپنا سفر ایک نظریاتی اور سیاسی کارکن کے طور پر شروع کیا تھا۔ بعد ازاں کشتیوں کے پشتے لگاتے اور ایک ہندو راشٹر کا خواب بیچتے ہوئے وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے طاقتور حمکران بن گے۔ یہی وہ وقت تھا جب انھیں آئینے میں بھگوان نظر آنے لگا۔ بھارت میں تازہ الیکشن کے نتائج نے انھیں اب کی بار ایک مخلوط حکومت کا وزیر اعظم تو بنا دیا ہے لیکن ساتھ ہی دوبارہ سیاست دان بھی بنا دیا ہے۔ اب شاید وہ اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوں اور سوچتے ہوں کہ یہ تو الٹی چل پڑی ہے۔
محمد حنیف لکھتے ہیں کہ طاقت کے نشے میں مخمور مودی جی نے الیکشن سے پہلے کھل کر کہنا شروع کر دیا تھا کہ کبھی کبھی لگتا ہے اپن ہی بھگوان ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا پہلا امریکی دورہ تھا۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان پر مسلمانوں کے قتل عام کا الزام تھا اور امریکہ میں ان کے داخلے پر پابندی تھی لیکن وزیر اعظم مودی کو کون روک سکتا تھا۔
سرکاری مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ امریکی شہروں میں جا کر انڈین تارکین وطن کے اجتماعات سے خطاب کر رہے تھے۔ جس طرح پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت عمران خان کی دیوانی ہے کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ بلآخر انھیں ایک ایسا لیڈر دستیاب ہوا ہے جو مغربی رہنماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد دنیا میں پھیلے انڈین تارکین وطن نے اپنے ہندو ہونے پر فخر کرنا شروع کیا اور اپنی قومی اور مذہبی شناخت کو گلے لگایا۔
محمد حنیف بتاتے ہیں کہ مودی کا ایک جلسہ نیو یارک کے میڈیسن سکوئر گارڈن میں بھی تھا۔ میں بھی اتفاق سے نیو یارک میں تھا۔ جلسے میں جانے کی کوشش کی لیکن پتہ چلا کہ کئی بارسوخ انڈین بھی نہیں جا پا رہے کیوںکہ ہاؤس کب کا فُل ہو چکا تھا۔ مودی جی کی تقریر ایک مقامی چینل پر دیکھی۔ جلسہ گاہ میں انکا استقبال ایسے ہی ہوا جیسے کسی راک سٹار کا ہوتا ہے۔ تقریر میں وہی باتیں تھیں انڈیا شائننگ والی، سینہ ٹھونک کر یہ کہنا کہ میں ہندو ہوں، پھر انڈیا اور امریکہ کے سپیشل رشتے کی بات کرتے ہوئے مودی جی نے کلائی سے اپنی گھڑی اتاری اور کہا کہ دیکھو ابھی نیو یارک میں کیا وقت ہوا ہے۔ پھر گھڑی کو الٹا کر کے دکھایا اور کہا کہ گھڑی کو الٹا کر کے دیکھو تو دلی میں یہی وقت ہے۔ لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ میں نے بھی اپنی گھڑی کو الٹا کر کے دیکھا کراچی آدھا گھنٹہ دلی سے پیچھے تھا۔ میڈیسن سکوئر گارڈن تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجھے الٹی گھڑی والی منطق پھر بھی سمجھ نہیں آئی۔ میں نے سوچا کراچی میں کوئی ایسی بات کرے تو کہتے ہیں کہ باولا ہوا ہے بھائی۔ لیکن گلی کی نکڑ پر سنی ہوئی جو بات باولی لگتی ہے وہی بات دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا پردھان منتری کرے تو گیان لگتی ہے۔
عوام بجٹ سے ریلیف کی امید نہ لگائیں، احسن اقبال
محمد حنیف لکھتے ہیں کہ دس سال تک مودی جی انڈیا کی جنتا کو اور پھر دنیا کے طاقتور ترین لیڈروں کو جھپیاں ڈال کر اپنا گیان پہنچاتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ پچھلے سال مائیکرو سافٹ والے بل گیٹس کو بٹھا کر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں لیکچر دیتے رہے۔ انڈیا اتنی بڑی مارکیٹ ہے کہ دنیا کے کسی سیٹھ کی یہ جرات نہیں کہ ان سے کہہ سکے کہ باولا ہوا ہے بھائی۔ نڈیا میں انتخاب کا چرچا شروع ہوا تو مودی جی کی پارٹی نے چار سو پار کا نعرہ لگا دیا۔ پھر انتخابی مہم میں مودی جی کا گیان دھرتی سے اٹھ کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا۔ پہلے وہ لوگوں کو بتاتے تھے کہ وہ تو بچپن میں ایک ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے تھے، وہ غربت میں پلے بڑھے ہیں، چالیس سال تک بھکشا پر گزارہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن الیکشن مہم میں فرمانے لگے کہ انھیں شک ہے کہ ان کی پیدائش ہی ایک معجزہ تھی۔ مودی پہلے مغل بادشاہوں کے راج کا بدلہ انڈیا کے مسلمانوں سے لیتے تھے، لیکن اس انتخابی مہم میں موصعف فرمانے لگے کہ ان کے سیاسی مخالف ہندوؤں سے دولت چھین کر مسلمانوں کو دے دیں گے جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ پھر انہیں خیال آیا ہو گا کہ جن ووٹروں کو دولت چھن جانے سے ڈرا رہے ہو وہ تو سرکاری راشن ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ پھر کہہ دیا کہ تمھاری بھینس چھین لیں گے، تمھارا منگل سوتر چھین لیں گے۔ پھر ایک تقریر میں فرمانے لگے کہ ان کے سیاسی مخالفین مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لیے مجرے کرتے پھر رہے ہیں۔ محمد حنیف کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب کسی نے ان کے کان میں کہہ دیا کہ مودی جی، کچھ زیادہ نہیں ہو گیا، تو موصوف نے ایک انٹرویو میں فرما دیا کہ میں نے تو کبھی زندگی میں ہندو مسلمان والی سیاست کی ہی نہیں۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ وہ حالیہ الیکشن سے پہلے خود کو بھگوان سمجھنے لگے تھے۔