کیا الیکشن میں مذہبی جماعتیں نون لیگ کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں اکثر سیاسی جماعتوں نے سیاسی مہم اور جوڑ توڑ کا آغاز کر دیا ہے لیکن گذشتہ انتخاب میں پنجاب کی سیاست میں نمودار ہونے والی دو مذہبی سیاسی جماعتیں تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ ابھی تک سیاسی طور پر زیادہ متحرک دکھائی نہیں دے رہی ہیں تا ہم دونوں جماعتوں کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ آئندہ چند روز میں یہ جماعتیں سیاسی مہم کا باقاعدہ آغاز کریں گی۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں یہ دونوں جماعتیں پنجاب میں کس حد تک متحرک ہو سکیں گی اور یہ مذہبی سیاسی جماعتیں ن لیگ یا کسی دوسری بڑی جماعت کے لیے کتنا بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہیں؟تجزیہ کاروں کے مطابق ان دونوں جماعتوں کو 2018 کے انتخابات میں سیاسی انجنیئرنگ کے ذریعے ن لیگ کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ ان جماعتوں کو اس طرح پذیرائی ملنا مشکل نظر آتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری کے مطابق ان کی جماعت اپنے منشور اور ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ ’ہر سیاسی جماعت کے لیے میدان کھلا ہے۔ ہر سیاسی جماعت آئینی و قانونی طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے۔ نون لیگ کو کسی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی پنجاب نون لیگ کا گڑھ تھا اور اب بھی عوام ہمارے ساتھ ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار وجاہت مسعودکے مطابق ’انتخابات میں ویسے تو کئی سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں لیکن ہر بار کچھ جماعتوں کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت الیکشن میں اتارا جاتا ہے۔’2018 کے انتخابات میں ٹی ایل پی سے پہلے دھرنا دلوایا گیا۔ پھر نون لیگ کا راستہ روکنے کی غرض سے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے سیاسی میدان میں اتارا گیا۔ اسی طرح ایم ایم ایل کے نام سے پارٹی بنا کر الیکشن لڑایا گیا تھا۔ اب بھی یہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن اس بار ان جماعتوں کو شاید پہلے کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہو سکے۔‘وجاہت مسعود کے بقول، ’یہ دونوں جماعتیں کیونکہ مذہبی منشور رکھتی ہیں اس لیے مذہبی سوچ رکھنے والا عوام کا بڑا طبقہ ان جماعتوں کا حامی ہے۔ اس لیے نون لیگ شاید ان دونوں جماعتوں سے مستقبل میں بات چیت کر کے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔‘
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ’نئی بننے والی یہ دونوں جماعتیں اگرچہ ابھی تک ملکی سطح یا پنجاب کی حد تک اس حالت میں نہیں کہ نشستیں جیت سکیں البتہ ووٹ ضرور توڑ سکتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی کردار یہی ہو سکتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کی حمایت کرنے کے بدلے ایک دو نشست مل سکیں تاکہ یہ بھی سیاسی دھارے میں شامل ہو سکیں۔‘سلیم بخاری کے مطابق، ’ماضی میں ان دونوں جماعتوں کو سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور اس بار وہ کردار بھی ادا کرنے کی حالت میں یہ دونوں جماعتیں نہیں ہیں نہ ہی پہلے والے اب حالات ہیں۔’ٹی ایل پی کے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم پر عمل درآمد کے معاملہ پر سپریم کورٹ کی جانب سے دیکھنا ہو گا کہ وہ ٹی ایل پی کو سیاسی کردار کی اجازت دیتی بھی ہے یا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ نون جس طرح سے سیاسی طور پر آگے بڑھ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان جماعتوں کو بھی سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کرے گی۔‘کس پارٹی کی عوام میں کتنی مقبولیت ہے اس کا اندازہ تو صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں آٹھ فروری کو ہو جائے گا لیکن بعض قدرے چھوٹی جماعتیں حیران کن نتائج
کیاالیکشن میں پیپلز پارٹی کا ہوم گراؤنڈ خطرے میں ہے؟
دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔