ریاست و حکومت کی اپنا "سودا” بیچنے میں ناکامی
تحریر:نصرت جاوید۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت
حق بات یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے دروغ گوئی ہی ’’فروخت‘‘ کی جاسکتی ہے۔خلق خدا کی بے پناہ اکثریت اپنے ہاں مسلط اشرافیہ سے خوش نہیں۔ نسلوں کی محرومی نے اسے یہ طے کرنے کو مجبور کردیا ہے کہ ان کے حکمران غاصبوں کا ٹولہ ہیں۔ وہ منافع خور سیٹھوں کے کارندے ہیں۔ عوام کی بھلائی کا نہیں سوچتے۔ انہیں محض سنہرے خواب دکھاتے ہیں۔غاصب حکمرانوں سے نجات کی لیکن کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔ دریں اثناء انٹرنیٹ کے فروغ نے فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم متعارف کروادئے۔ دْکھوں سے مغلوب ہوئے افراد ان کے ذریعے اپنے دلوں میں جمع ہوئے غصے کو پریشر ککر سے نکلی بھاپ کی طرح ٹویٹر یا فیس بک پر نکال لیتے ہیں۔ جی کا غبار نکل جاتا ہے لیکن مسائل جوں کے توں موجود ہیں کیونکہ ان کی حقیقی نشان دہی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی واہی تباہی کی بدولت ممکن ہی نہیں۔
سوشل میڈیا مسائل کے حل کے بجائے معاشروں کو بے بنیاد تعصبات کی بنیاد پر کسی ’’دوسرے‘‘ یا ’’غیر‘‘ کو اپنے مسائل کا بنیادی ذمہ دار ٹھہرانے کا عادی بناتا ہے۔ برطانیہ میں مثال کے طورپر بورس جانسن جیسے چالاک سیاستدانوں نے نہایت مکاری سے عوام کی اکثریت کو قائل کردیا کہ کئی صدیوں تک دنیا کی طاقت ور اور مالدار مانی ’’سلطنت برطانیہ‘‘ درحقیقت یورپ میں ’’مدغم‘‘ ہوکر زوال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ زوال کے حقیقی اسباب کا جائزہ لینے کے بجائے ’’سودا‘‘ یہ بیچا گیا کہ برطانیہ اگر یورپی یونین سے الگ ہوجائے تو ’’اینگلوسیکسن تہذیب‘‘ کے احیاء سے ‘’برطانیہ اپنی ’’عظمت رفتہ‘‘ بحال کرسکتا ہے۔کامل نفرت کی بنیاد پر جو بے بنیاد بیانیہ تشکیل ہوا اس کے نتیجے میں بالآخر ’’بریگزٹ‘‘مہم کے ذریعے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا۔ یہ علیحدگی لیکن اس کی ’’عظمت رفتہ‘‘ بحال نہیں کرپائی۔ ’’بریگزٹ‘‘ کو ممکن بنانے والا وزیر اعظم بورس جانسن بھی اپنے منصب پر دوبرس گزارنے کے بعد قائم نہ رہ پایا۔درمیان میں ایک خاتون وزیر اعظم کی چند روزہ حکومت کے بعد ان دنوں ہمارے خطے سے نمودار ہوئے ایک خاندان کافرزند رشی سونک وہاں کا وزیر اعظم ہے اور لطیفہ یہ بھی ہے کہ اسے کنزرویٹو یا قدامت پسند پارٹی نے اپنا وزیر اعظم بنایا جو اصولی طورپر برطانیہ کو فقط انگریزوں کا ملک تصور کرتی رہی ہے اور وہاں آباد تارکین وطن کو ’’غیر‘‘ تصور کرنے کو مصر۔
برطانیہ کی طرح امریکہ میں صدر ٹرمپ بھی ریگولر اور سوشل میڈیا پر تارکین وطن کے خلاف پھیلائی نفرت کی وجہ سے برسراقتدار آیا۔ وہ بھی ’’غاصب سسٹم‘‘ کو تباہ وبرباد کردینا چاہتا تھا۔2020ء کا صدارتی انتخاب مگر ہار گیا۔اپنی ہار تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کا شور مچایا۔ اپنے حامیوں کو اس حد تک اْکسایا کہ وہ واشنگٹن میں پارلیمان کی عمارت میں درآئے۔ وہاں ہوئے ہنگامے میں ملوث ’’شرپسندوں‘‘ کی شناخت کے بعد انہیں سنگین سزائیں سناکر جیل بھیج دیا گیا ہے۔فیصلہ اب یہ ہونا ہے کہ واشنگٹن میں 6جنوری 2021ء کے روز جو ہنگامہ آرائی ہوئی تھی ٹرمپ اس کا براہِ راست ذمہ دار ہے یا نہیں۔
سوشل میڈیا کی کلیدی حرکیات اور ان کے حوالے سے بورس جانسن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ذکر سے کالم کے آغاز نے آپ کو خبردار کردیا ہوگا کہ میں وطن عزیز میں تحریک انصاف اور عمران خان کو زیر بحث لانا چاہ رہا ہوں۔آپ نے درست سوچا ہے۔عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کی اہمیت دریافت کی اور اس کی مبادیات پر کامل گرفت کے حامل افراد کو اپنے ’’بیانیے‘‘ کے فروغ کے لئے بطور ’’ماہر‘‘معقول تنخواہوں پر ملازم رکھا۔
سیاسی کارکنوں کی ’’رضا کاری‘‘ پر تکیہ کرنے کے بجائے انہیں سیاسی جماعت کے پیغام کو عوام تک منظم انداز میں پھیلانے کے لئے ’’تنخواہ دار کارکنوں‘‘ کے طورپر ’’ملازم‘‘ رکھنے کا تصور تاریخ میں روسی انقلاب کے بانی لینن نے اپنی کمیونسٹ پارٹی کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ ہمارے ہاں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی نے بھی یہ چلن اپنایا۔ اس کے ہمہ وقتی کارکن اور عہدے داروں کا ’’پیشہ‘‘ ہی جماعت اسلامی کے نظریے کا فروغ اور اس کی سیاست کو سنبھالنا ہے۔
تحریک انصاف نے تاہم ’’تنخواہ دار کارکنوں‘‘ کے بجائے سوشل میڈیا کی مبادیات پر گرفت کے حامل ’’ماہرین‘‘ کو معقول اور بسااوقات بھاری بھر کم تنخواہوں پر ملازم ر کھا۔ اس ضمن میں امریکہ اور یورپ کی پیشہ ور کمپنیوں سے بھی رجوع ہوا۔ ان سب کی ’’مہارت‘‘ کے نتیجے میں تحریک انصاف پراپیگنڈے کے محاذ پر چھائی ہوئی ہے۔اس کا ’’انقلابی‘‘ پیغام پھیلانے والوں کی خاطر خواہ تعداد کسی زمانے میں ریاست پاکستان کے طاقت ور ادارے کے لئے ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ لڑنے میں بھی پیش پیش ہوا کرتی تھی۔ ہماری ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ کے دفاع کا بوجھ انہوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھارکھا تھا۔ ریاست کے پھیلائے بیانیے پر دیانتدارانہ سوالات اٹھانے والے صحافی اور تجربہ کار ان ’’مجاہدینِ ابلاغ‘‘ نے عوام کے روبرو بھارت اور دیگر ’’اسلام دشمن قوتوں‘‘ کے ایجنٹ بناکر پیش کئے۔ایسے عناصر کو ’’بے نقاب‘‘ کرنے کی وجہ سے انہوں نے یوٹیوب چینلوں سے ڈالروں میں خوب رقم بھی کمائی۔ریاستی اداروں نے انہیں فیاض سرپرستی سے نوازا۔ عمران خان کی ’’سیم پیج‘‘ سے علیحدگی نے مگر انہیں پریشان کردیا۔ یوٹیوب چینلوں سے کمائے ڈالروں سے لیکن اب وہ اقتصادی اعتبار سے خودمختار ہوچکے تھے اس لئے سچ مچ کے ’’انقلابی‘‘ بن کر عمران خان کی حمایت میں ڈٹ کرکھڑے ہوگئے۔
ہماری ریاست نے اپنی سرپرستی میں پراپیگنڈہ کے محاذ پر جو ’’جن‘‘ تیار کئے تھے انہیں ’’بوتل میں ڈالنا‘‘ اب نہایت دشوار ہورہا ہے۔ جن ’’ملک دشمن‘‘ صحافیوں کو ان کے ذریعے راندئہ درگاہ قرار دیا گیا تھا اس قابل ہی نہیں رہے کہ برسوں تک ریاست پاکستان کے تصدیق شدہ ’’محبان وطن‘‘ کا مقابلہ کرپائیں۔لڑائی لہٰذا ’’خالق ومخلوق‘‘ کے درمیان ہی محدودہوچکی ہے اور ’’خالق‘‘ کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے ہی تیارکردہ ’’محبان وطن‘‘ کے پھیلائے بیانیے کا وہ کس طور مقابلہ کرے۔اس عالم میں عمران خان کے خلاف بنائے سائفر کیس کو سپریم کورٹ نے جس انداز میں ناقص ٹھہرایا ہے اس نے تحریک انصاف کے لئے ’’بیانیہ‘‘ مرتب کرنے اور اسے فروغ دینے والوں کو توانا تر بنادیا ہے۔ بتدریج ریاست پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کو 8فروری 2024ء کے دن طے ہوئے انتخاب میں بلے کے نشان سمیت حصہ لینے کی سہولت فراہم کرے۔ وگرنہ اس روز ہوئے انتخاب ’’مشکوک‘‘شمار ہوں گے۔مذکورہ تناظر میں پراپیگنڈہ کے محاذ پر ریاست وحکومت اپنا ’’سودا‘‘ بیچنے میں قطعاََ ناکام دکھائی دے رہی ہے۔