انسپکٹر نوید سعید نے کس کے حکم پر آصف زرداری کی زبان کاٹی ؟

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر آصف علی زرداری کے خطاب کے دوران انکی ادائیگی پر تنقید کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی آصف زرداری ہیں جنہوں نے بلا وجہ 11 برس طویل جیل کاٹنے کے باوجود پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا۔ لہذا ان کے لہجے پر تنقید کرنے کی بجائے ان کی تقریر کی اصل روح کو سمجھنا ضروری ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار بلال غوری اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر پاکستان کا خطاب سن کر کسی کو امریکی صدر جوبائیڈن کا خیال آیا تو کسی نے گورنر جنرل غلام محمد کو یاد کیا۔ میرا خیال ہےکہ تمام تر ضعف و ناتوانی کے باوجود صدر زرداری کا موازنہ گورنر جنرل غلام محمد سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بعض سیاسی مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید صدر زرداری کوئی ان پڑھ شخص ہیں حالانکہ ماضی میں انگریزی اور اردو میں انکی گفتگو پر مبنی ویڈیوز باآسانی دستیاب ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آصف زرداری ایک قادر الکلام سیاستدان ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ صدر زرداری کو اردو پڑھنے میں دِقت کا سامنا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو انگریزی میں تقریر کی جا سکتی تھی یا پھر رومن رسم الخط میں اردو تقریر لکھ کر دی جا سکتی تھی۔ میری معلومات کے مطابق آصف زرداری سے اسیری کے دوران جو سلوک روا رکھا گیا، اس کے اثرات اب بڑھاپے میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ جیل میں آصف زرداری کی زبان کاٹ دی گئی تھی اور ممکنہ طور پر اس لکنت کا سبب وہی دلخراش واقعہ ہو سکتا ہے۔
بلال غوری بتاتے ہیں کہ جب صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی تو آصف زرداری کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد وہ طویل عرصہ مختلف مقدمات میں پابند سلاسل رہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب آصف زرداری جسٹس نظام قتل کیس میں کراچی پولیس کی تحویل میں تھے تو لاہور سے سی آئی اے پولیس کے ایک انسپکٹر نوید سعید کو آصف زرداری سے تفتیش کرنے کے بہانے کراچی بھیجا گیا۔ تب رانا مقبول مرحوم آئی جی سندھ تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف کی خواہش اور رانا مقبول کے حکم پر اس پولیس انسپکٹر نے آصف زرداری کو تفتیش کی آڑ میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور شیشے کا گلاس توڑ کر ان کی گردن پر تیز دھار آلے کے طور پر چلانے کی کوشش کی۔ اس نے زرداری صاحب کی زبان کاٹ دی جس کے بعد بے ہوشی کے عالم میں انہیں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد آصف زرداری کی ہمشیرہ نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تو سندھ پولیس نے واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ زرداری صاحب نے خود کشی کی ناکام کوشش کے دوران خود کو زخمی کیا۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک پولیس انسپکٹر کی کیا مجال کہ وہ سابق وزیر اعظم کے شوہر پر اس طرح کا تشدد کرے۔ لیکن یہ پولیس انسپکٹر اپنی نوعیت کا منفرد کردار تھا۔ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بدنام انسپکٹر نوید سعید جہلم کے رہائشی ریٹائرڈ صوبیدار محمد سعید کا بیٹا تھا۔ لاہور پولیس کے سربراہ میجر محمد اکرم نے اس وقت کے اے آئی جی منیر ڈار سے نوید سعید کی سفارش کی اور وہ کبڈی کے کوٹے پر 1984میں اے ایس آئی بھرتی ہو گیا۔ زیر تربیت تھانیدار کی حیثیت سے اس کی پہلی پوسٹنگ ضلع قصور میں ہوئی جو اس وقت لاہور رینج کا ہی حصہ تھا پھر وہ تربیت کیلئے سہالہ چلا گیا۔ اس دوران پنجاب پولیس کی کبڈی ٹیم صوبائی چیمپئن شپ جیت گئی تو زیر تربیت تھانیدار نوید سعید کو براہ راست سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی مل گئی اور بہت جلد جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کے باعث اسے بااثر شخصیات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس نے کئی ٹاپ ٹین اشتہاریوں کو پولیس مقابلوں میں ٹھکانے لگایا لہٰذا جرات اور بہادری کی وجہ سے وہ جلد ہی سیاسی شطرنج کی بساط کا ایک اہم مہرہ بن گیا۔
انسپکٹر نوید سعید کو سب سے زیادہ شہرت تب ملی جب پولیس نے پنجاب اسمبلی سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سلمان تاثیر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر انھیں تھپڑ رسید کیا۔ اس واقعہ کا اخبارات میں بہت چرچا رہا اورحکومت نے وقتی طور پر انسپکٹر نوید سعید کو معطل کر دیا، مگر کچھ عرصہ بعد اسے بحال کردیا گیا۔ بعض لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ 12اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیے جانے کے بعد پولیس کے جس دستے کو کراچی ایئر پورٹ سے انہیں تحویل میں لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس میں انسپکٹر نوید سعید بھی شامل تھے۔ نوید سعید پولیس ملازمت کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا تھا جہاں سے اس نے بہت دولت کمائی چنانچہ پرویز مشرف کے دور میں اس کے خلاف نیب نے ناجائز اثاثہ جات کے الزام میں ریفرنس دائر کیا اور اسکا نام ای سی ایل میں درج ہو گیا۔
عقاب اور شیرنی کی ملاقات کے پیچھے کس نگہبان کا ہاتھ تھا ؟
بعد ازاں نوید سعید کو تین برس قید کی سزا ہو گئی مگر وہ پہلے ہی لندن فرار ہو گیا اور پھر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پلی بار گین کی درخواست دی جو نیب نے منظور کر لی اور وہ بری ہو گیا۔ یہ کیس ختم ہونے کے بعد وہ پاکستان آ گیا اور ملازمت پر بحال ہونے کیلئے سروس ٹربیونل میں درخواست دی۔ مگر نومبر 2005ء میں زمین کے تنازع پر رائیونڈ روڈ ستوکتلہ کے علاقہ میں نوید سعید کو قتل کر دیا گیا۔