پی ٹی آئی احتجاج میں افغان پناہ گزینوں کی شرکت پر پاک افغان تنازعہ

حکومت پاکستان نے عمران خان کی کال پر اسلام  آباد میں ہونے والے احتجاج میں ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی شرکت کا نوٹس لیتے ہوئے ان کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن افغان حکومت نے اس پر تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔

حکومتی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اسلام اباد کے احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 200 سے زائد افغان باشندے پی ٹی ائی کے لیے گوریلا فورس کا کردار ادا کر رہے تھے جنکو دہشت گردی کی ٹریننگ تھی اور وہ مسلسل سکیورٹی فورسز پر حملہ اور ہو رہے تھے۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے ان افغان دہشت باشندوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں۔ اسلام آباد میں احتجاج کے خاتمے کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے اعلان کیا تھا کہ اب سے اسلام اباد میں کسی افغان باشندے کو این او سی کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ملے گی۔

دوسری جانب افغان طالبان کے تحت کام کرنے والے پاکستان میں افغان سفارت خانے نے احتجاج میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے بیانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغان سفارت خانے نے کہا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور دیگر حکام کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج سے متعلق بیانات میں افغان شہریوں کا حوالہ دیا جارہا ہے جس سے یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ اسے بنیاد بناتے ہوئے افغان پناہ گزینوں کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔سفارت خانے نے اپنے بیان میں افغان شہریوں کے پاکستانی سیاست میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے خلاف اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا۔

یاد رہے کہ پاکستانی دار الحکومت میں حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف نے گزشتہ ہفتے عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے مظاہرین کو روکنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھارتی نفری تعینات کی گئی تھی۔
ان رکاوٹوں کے باوجود وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کے علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں کے پی سے آنے و الا قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ 26 نومبر کی رات جب پی ٹی آئی کے مظاہرین نے ریڈ زون کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو سیکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کر دیا تھا۔ اس دوران شدید شیلنگ اور فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس دوران کئی مواقع پر یہ کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان شہری شامل ہیں اور پرتشدد واقعات میں بھی ملوث ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ افغان باشندے بغیر این او سی اسلام آباد نہیں آ سکیں گے۔

حکومت ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان پناہ گزینوں کی شرکت اور ان کی جانب سے املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس سے متعلق مکمل تحقیقات کا مطالبہ بھی کرتی آئی ہے۔ اب افغان سفارت خانے نے بھی اپنے بیان میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ افغان باشندے اسلام اباد میں بد امنی کے واقعات میں ملوث نہیں چنانچہ پاکستان ایسا ماحول پیدا کرنے سے گریز کرے جس کے باعث پناہ گزینوں کے خلاف بد اعتمادی میں اضافہ ہو۔ سفارتخانے نے کہا کہ یہ ماحول افغان پناہ گزینوں کو مزید ہراساں کرنے، بدنامی اور جبری منتقلی کا باعث بن سکتا ہے۔ افغان سفارت خانے کا کہنا ہے ایسی پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ اس سے دونوں ہمسایہ ممالک میں بد اعتمادی مزید بڑھے گی۔

یاد ریے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے مطالبات اور سرحد پر نقل و حرکت سے متعلق اقدامات پر پہلے ہی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان حکومت تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو بارڈر کراس کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے نہیں روک رہی۔ تام افغانستان کی طالبان حکومت کا موقف ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کسی کے ڈسپلن میں نہیں اور اس کی جانب سے ساری کاروائیاں سرحدی علاقوں سے کی جا رہی ہیں۔

Back to top button