پاکستان، بنگلہ دیش 50 سال بعد معاشی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟

14 اگست 1947 کو ایک ساتھ سفر شروع کرنے والے پاکستان اور بنگلہ دیش میں 50 سال بعد سماجی اور معاشی فرق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اس بارے میں جی ڈبلیو چوہدری اپنی تصنیف Last Days of United Pakistan میں لکھتے ہیں کہ 1960 میں مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی مشرقی پاکستان کے باسیوں کی فی کس آمدنی سے 32 فیصد زائد تھی اور اگلے 10 سال میں یہ فرق 81 فیصد تک چلا گیا۔16دسمبر 1971 کو جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں معرض وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے معاشی اشاریوں میں بہت زیادہ فرق تھا، گزشتہ دو عشروں میں بنگلہ دیش میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی وجہ سے آزادی کے 52 برس بعد بنگلہ دیش کے معاشی اشاریئے پاکستان سے بہت زیادہ بہتر ہو چکے ہیں۔پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال کا 52 برس بعد موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش کچھ شعبوں میں پاکستان سے کافی آگے نکل چکا ہے جس میں خاص کر گارمنٹس برآمدات کا شعبہ ہے جس میں اس وقت بنگلہ دیش دنیا میں چین کے بعد سب سے برآمدات والا ملک بن چکا ہے، دوسری جانب پاکستان کا شمار گارمنٹس ایکسپورٹ کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔بنگلہ دیش اور پاکستان کا مالی سال ہر سال پہلی جولائی کو شروع ہوتا ہے اور اگلے سال 30 جون کو ختم ہوتا ہے، 52 برس کے بعد 30 جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال میں اکنامک سروے کے مطابق پاکستان کی معیشت کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم یعنی 0.29 فیصد رہی، دوسری جانب اس مالی سال میں بنگلہ دیش اکنامک ریویو کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت کی ترقی کی شرح 6 فیصد رہی۔تاہم یہ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتار مسسلسل 12-13 سال سے چھ فیصد سے زائد پر ترقی کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کی معاشی ترقی گزشتہ 10-12 سال میں تین سے چار فیصد کے درمیان رہی جس میں دو سال تو یہ ایک فیصد سے بھی کم رہی، اس وقت بنگلہ دیش کی معیشت کا حجم 454 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی معیشت کا حجم 340 ارب ڈالر ہے۔پاکستان کے اکنامک سروے کے مطابق گذشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1568 ڈالر رہی۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے اکنامک ریویو کے مطابق اس کے شہریوں کی فی کس آمدنی 2687 ڈالر رہی۔بنگلہ دیش کی برآمدات گزشتہ مالی سال میں مصنوعات اور خدمات کے شعبے میں 64 ارب ڈالر رہیں جن میں 55 ارب ڈالر کی مصنوعات اور نو ارب ڈالر کی خدمات برآمد کی گئیں۔اس کے مقابلے میں پاکستان کی گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات 35 ارب ڈالر رہیں جن میں 27 ارب ڈالر کی مصنوعات اور آٹھ ارب ڈالر خدمات برآمد کی گئیں۔پاکستان اور بنگلہ دیش میں غربت کی سطح کا موازنہ کیا جائے تو گزشتہ 52 برس میں اس میں تبدیلی دیکھی گئی۔ورلڈ بینک کے مطابق بنگلہ دیش میں غربت کی سطح 2016 میں 13.47 فیصد تھی اور اس کی شرح 2022 میں 10.44 فیصد تک گر گئی۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2000 میں بنگلہ دیش میں غربت کی سطح 49 فیصد تھی تاہم دو دہائیوں میں اس کی شرح میں کافی کمی ریکارڈ کی گئی، پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں غربت کی شرح 39.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ 2018 میں پاکستان میں غربت کی شرح 22 فیصد تھی۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے استاد عدیل ملک نے کہا اگر موجودہ صدی میں بنگلہ دیش کے ترقی اور پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ دونوں ممالک میں موجودہ اشرافیہ کی سوچ اور وژن کا فرق ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ماہر معیشت ڈاکٹر حفصہ حنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں بہت سے چیلنج رہے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ایکسچینج ریٹ کا ہے جسے ہمیشہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی اور جس نے پاکستان کے برآمدی شعبے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔سندھ سے بنگلہ دیش میں گارمنٹس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے عدنان ظفر نے بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں صنعت کی سہولت کاری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہاں بجلی و گیس و پانی کے کنکشن دو دن میں مل جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں اول تو اس وقت گیس کا کنکشن ملتا نہیں ہے اور بجلی کا کنکشن لینے میں دو سال لگ جاتے ہیں۔پاکستان میں گارمنٹس سیکٹر کے برآمد کنندگان کی تنظیم کے سابق چیئرمین اعجاز کھوکھر نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے گارمنٹس سیکٹر میں آگے نکلنے کی ایک وجہ تو ان کی پراڈکٹ لائن ہے۔وہ اس شعبے میں بہت زیادہ مصنوعات بنا رہے ہیں جبکہ ہم صرف ابھی تک چار پانچ پراڈکٹ ایکسپورٹ کر سکے ہیں۔پاکستان میں خواتین کی صنعتی شعبے میں کام کرنے کے بارے میں ڈاکٹر حفصہ نے کہا کہ ’بنگلہ دیش کی کہانی بہت متاثر کن ہے تاہم پاکستان میں اس کے الٹ ہوتا ہے، خواتین کو سرکار کی جانب سے کسی ٹیکنیکل تعلیم کی فراہمی کی بجائے انھیں چند ہزار روپے دے دیئے جاتے ہیں جو ہر حکومت مختلف سرکاری سکیموں کے ذریعے دیتی ہے تو ایسی صورت حال میں خواتین کیسے

پاکستان میں پہلے الیکشن کے انعقاد میں 23 سال کیوں لگے؟

پیداواری نظام کا حصہ بن پائیں گی۔

Back to top button