کیا نواز شریف وفاق میں اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہونگے؟
انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت سازی کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز متحرک ہوگئے ہیں۔ تاہم الیکشن کے نتائج آنے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے فتح کے شادیانے بجائے جانے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں سوال ہے کہ ملک کا نیا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا وفاق اور صو بوں میں حکومتیں کس کی بنیں گی؟
مبصرین کے مطابق زمینی حقائق کے مطابق حکومت سازی بارے ایک بات کنفرم ہے کہ ملک میں کسی صورت بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم نہیں ہو گی تاہم آئندہ حکومت کی تشکیل میں آزاد امیدواروں کا کردار کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم تاثر ہے کہ تمام آ زاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی لیکن حقیقت یہ نہیں، اگرچہ اکثریت کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے لیکن بعض امیدواروں نے مختلف جماعتوں سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ہے اور جیت گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے دس سے زیادہ ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے جہاں تک وفاق میں حکومت سازی کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑا گروپ آزاد ممبران کا ہے ان میں سے بیشتر پی ٹی آئی کیساتھ کمٹڈ ہیں لیکن چونکہ انہوں نے پارٹی کے نشان پر الیکشن نہیں لڑا اس لئے انکی حیثیت آزاد ممبر کی ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آزاد ممبران کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا جائے تاکہ انہیں مخصوص نشستوں میں زیادہ کو ٹہ مل سکے، پی ٹی آئی کی قیادت کا اب بڑ اچیلنج یہ ہوگا کہ اپنے آزاد ارکان کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکے کیونکہ وہ پلڑا بھاری ہوجائیگا جس جانب آزاد ارکان جائینگے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق PTI کے پاس سپر یم کورٹ سے رجوع ، مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے کے آپشنز ہیں کیونکہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے بعد ہی جیتنے والے تحریک انصاف مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی دس نشستیں ہیں یہ 70 نشستیں سیاسی جماعتوں کی عددی حیثیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گی اس وقت سب سے زیادہ نشستیں مسلم لیگ ن کے پاس ہیں دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی ہے ایم کیو ایم تیسرے، جے یو آئی چوتھے اور مسلم لیگ قائد اعظم پانچویں نمبر پر ہے۔رولز کے تحت اگر آزاد امیدواروں نے نو ٹیفکیشن جاری ہونے کے تین دن میں کسی پارٹی کو جوائن نہ کیا تو مخصوص نشستیں ان جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں گی تاہم آ زاد ارکان پر قدغن نہیں ہے وہ لا زمی طور ہی کسی پارٹی کو جوائن کریں سوائے اس کے وہ مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائینگے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ممبران قومی اسمبلی کے پاس کئی آپشن ہیں پہلا یہ کہ وہ مجلس وحدت مسلمین جوائن کرلیں جن کے رہنما راجہ ناصر عباس نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی بعد ازاں انہوں نے بیرسٹر گوہر خان سے بھی ملاقات ہوئی جس میں دونوں جماعتوں نے الیکشن میں تعاون کا فیصلہ کیا تھا۔ایم ڈبلیو ایم کو جوائن کرنے پر پارٹی قیادت میں سے بعض کے تحفظات ہیں کیونکہ مجلس وحدت مسلمین ایک مذہبی جماعت ہے اسکا اپنا منشور ہے جو مذہبی نوعیت کا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا اپنا منشور ہے جو مختلف ہے۔
تحریک انصاف کے پاس دوسرا آپشن یہ کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا جائے جسکے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا ہیں اس بارے میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے کسی سیاسی جماعت سے الحاق کا آپشن موجود ہے ہم اپنی مخصوص نشستوں کو ضائع نہیں ہونے دینگے، قانونی ٹیم اسکا جائزہ لے رہی ہے۔ایک اور رہنما نے بتایا ہم سپر یم کورٹ میں ریویو در خواست کی جلد سماعت کیلئے در خواست دینگے تاکہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال ہوجائے ہماری پہلی آپشن یہ ہے کہ سپر یم کورٹ سے ریلیف مل جائے کہ ہم پی ٹی آئی کو جوائن کرسکیں۔
دوسری جانب نئی مخلوط حکومت بنانے کیلئے میاں نوازا شریف کو 169 ارکان کی حمایت درکارہو گی۔ مبصرین کے مطابق نون لیگ کیلئے نئے سیاسی منظر نامے میں آزاد ارکان کی حمایت آخری ترجیح ہے لیگی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد سے بات نہیں ہو گی ، صدر ،چیئرمین سینٹ ، سپیکر سمیت برے عہدوں کیلئے پارٹیوں میں اتفاق رائے سے فیصلے ہوں گے ، اب تک کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) 71 سیٹوں کے ساتھ سنگل میجارٹی پارٹی ابھری ہے۔مسلم لیگ (ن) اگر پی پی پی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو مخلوط حکومت بنانے میں زیادہ مشکل نہیں ہو گی ،پی ایم ایل (ن) کی حکمت عملی سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 99 منتخب آزاد ارکان میں سے قابل قبول ارکان کی حمایت کا حصول آخری ترجیح ہو گی ۔ اب تک موصولہ نتائج کے تحت مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی ، آئی پی پی ، مسلم لیگ (ق) ، جے یو آئی ،ایم کیو ایم اور بلوچستان کی تین قومی پرست جماعتوں کے منتخب ارکان کو ملا کر یہ تعداد 130 سے زیادہ ہو سکتی ہے .وزیر اعظم بننے کیلئے 169 ارکان کی حمایت ضروری ہو گی ،ایسی صورت میں میاں شہباز شریف اور آصف زرداری کی کوششوں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد 39 ارکان کو ساتھ ملا نا اہم ٹاسک ہو گا۔
مبصرین کے مطابق موجودہ الیکشن میں جس طرح کے نتائج آئے ہیں وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب ملک میں کثیر الجہتی حکومت بنے گی اور اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہو گی کثیر الجہتی حکومت میں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) جمعیت علماء اسلام اور دیگر چھوٹی جماعتوں سمیت آزاد امیدوار شامل ہوں گے ایسا پہلی بار ہوگا کہ اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہوگی قومی حکومت کے قیام کا مقصد ملک میں انتشار اور بے یقینی کو ختم کرکے ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال ابتر ہے اور عام آدمی اس صورتحال سے مایوسی کا شکار ہے اور عوام کو اس مشکل سے نکالنا یقینا نئی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہوگا نئی قومی حکومت میں وزیر اعظم مسلم لیگ(ن) کا اور صدر پیپلزپارٹی کا ہوسکتا ہے اسی طرح وفاقی کابینہ میں جیتنے والے آزاد
امیدوار کو اہم وزارتیں دی جاسکتی ہیں۔