کیا پاکستان دوبارہ دو عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بننے والا ہے؟

 

سینئر صحافی اور کالم نگار سلیم صافی نے کہا ھے کہ دنیا میں دوسری سردجنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس نئی سرد جنگ میں ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف چین ہے۔ امریکہ دھچکے دلوا کر اور چین ترغیبات دے کر پاکستان کو مجبور کررہا ہے کہ وہ اپنا کیمپ واضح کر دے ۔ماضی کی طرح امریکی یا چینی کیمپ میں جانا درست نہیں ہو گا۔ بہتر یہی ہو گا کہ پاکستان اپنے آپ کو درمیان میں رکھے تاکہ وہ کسی ایک فریق کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنے۔ اپنے ایک کالم میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ سویت یونین کے ٹوٹ جانے اور کمیونزم کی شکست کے بعد دنیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تنہااجارہ داری قائم ہوئی اور نیو ورلڈ آرڈر وجود میں آیا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر میں امریکہ کو من مانیوں کا بھرپور موقع ملا۔ جب چاہا عراق پر چڑھائی کی، جب جی میں آیا افغانستان میں جاگھسا اور جب دل کیا مصر جیسے ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کیں لیکن اب ایک بار پھر وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک طاقت کی اجارہ داری سے دوبارہ بائی پولر یا ملٹی پولر کی طرف جا رہی ہے۔ چین امریکہ کے مقابلے میں ایک نئی سپر پاور کے طور پر سامنے آیا ہے جبکہ روس نے بھی صدر پوٹن کی قیادت میں ایک بار پھر خود کو امریکہ کو چیلنج کرنے والی طاقت میں بدل دیا ہے۔ کئی سال سے یہ مقابلہ جاری ہے۔ امریکہ پورا زور لگا رہا ہے کہ دنیا پر گزشتہ دو دہائیوں کی طرح اس کی اجارہ داری قائم رہے جبکہ چین چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کی جگہ لے لے۔ اسی طرح روس بھی چینی بلاک کے ساتھ مل کر دوبارہ امریکہ سے سینگ پھنسانے لگا ہے۔ یوں دنیا ایک اور سرد جنگ میں داخل ہو گئی ہے اور اس کا جو منطقی نتیجہ نکلے گا اس کے نتیجے میں ایک نیا ورلڈ آرڈر جنم لے گا۔
سلیم صافی کے مطابق سر دست اس سرد جنگ میں ہر فریق ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور پھر ایک قدم پیچھے جاتا ہے۔ کبھی انتہائی جارحانہ انداز اپنا لیتا ہے اور کبھی مدافعانہ۔ اس جنگ کے فریقین اپنے لئے اتحادیوں کو بھی تلاش کر رہے ہیں۔ چین بعض ایشوز پر کھل کر امریکہ کو چیلنج کردیتا ہے تو بعض سے متعلق خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ یہی معاملہ امریکہ کا بھی ہے۔ امریکی چین کو اپنا نمبر ون ہدف قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ چین کے ساتھ تجارت بھی کر رہے ہیں۔ روس نے یوکرائن کے معاملے پر بڑا جارحانہ رویہ اپنایا لیکن مشرق وسطیٰ کے قضیے میں امریکہ کے مقابلے میں اس طرح فعال نہیں جس طرح کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے یوکرائن کے معاملے پر اس کی حکومت کو اپنا پراکسی بنا لیا ہے لیکن خود براہ راست افواج نہیں بھیجیں۔ اس نئی اور پیچیدہ سرد جنگ کی وجہ سے یورپ اور عرب دنیا کے ممالک بھی پریشان ہیں کہ وہ ساتھ دیں تو کس کا دیں اور جس کا ساتھ دیں وہ کس انداز میں دیں۔ عرب دنیا اور بالخصوص سعودی عرب نے بھی ابھی تک اپنے لئے کیمپ کا انتخاب نہیں کیا۔ وہ ایک طرف امریکہ کے ساتھ ہے لیکن دوسری طرف اپنے ملک میں بے تحاشہ چینی سرمایہ کاری کو دعوت دے کر پہلی مرتبہ محمد بن سلمان نے یہ تاثر قائم کر لیا ہے کہ ان کا ملک امریکی کیمپ میں نہیں۔ اسرائیل کے معاملے پر بھی سعودی عرب نے امریکہ کی خواہش پوری نہیں کی بلکہ غزہ کی جنگ کے حوالے سے محمد بن سلمان اسرائیل کے خلاف سفارتی محاذ پر بیانیہ بنانے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ پہلی سرد جنگ میں تقسیم بہت واضح تھی۔ لیکن موجودہ سرد جنگ میں ایسی صورت حال نہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کو دیکھ لیں۔ وہ چین کے مقابلے میں امریکہ کیلئےفرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا ہے لیکن دوسری طرف وہ ماضی کی طرح روس کا بھی قریبی اتحادی ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ دوسری سردجنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس نئی سرد جنگ میں ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف چین ہے۔ چین کے ساتھ روس بھی ہو گا۔ لیکن اس سرد جنگ میں اب تک دونوں طرف کی حکمت عملی واضح ہے اور نہ ماضی کی سرد جنگ کی طرح دنیا کے دیگر ممالک نے وضاحت کے ساتھ اپنے اپنے کیمپ کا تعین کیا ہے۔ یوں اسے ایک کنفیوژ کرنے والی سرد جنگ بھی کہا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں اس جنگ کو اور بھی تیز بنانے کی غرض سے امریکہ اپنے لئے حلیفوں اور پراکسیز کی تعداد بڑھا رہا ہے اور درمیان میں کھڑے ممالک کو اپنے اپنے انداز میں مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالیں۔ مثلاً روس کے ساتھ انڈیا کے بھرپور تعلقات کے باوجود امریکہ کی طرف سے اسے اسٹرٹیجک اتحادی بنانا اور افغانستان کو طالبان کے سپرد کردینا، امریکہ کی طرف سے اس تیاری کے دو شواہد ہیں۔ جبکہ چین کی طرف سے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی یا پھر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ٹیو (بی آرآئی) کے زیرسایہ اپنا اثرورسوخ بڑھانا چین کی تیاریوں کے شواہد ہیں۔ یوں نئے ورلڈ آرڈر کے قیام کیلئے جو سرد جنگ جاری ہے، اس کی وجہ سے دنیا کنفیوژستان بن گئی ہے۔ ابھی نیا نیو ورلڈ آرڈر قائم نہیں ہوا جبکہ سابقہ نیو ورلڈ آرڈر باقی نہیں رہا اس لئے دنیا میں اس وقت جو آرڈر چل رہا ہے اسے نیو ورلڈ ڈس آرڈر کا نام دینا مناسب ہوگا
سلیم صافی کا کہنا ھے کہ اس وقت ریاست پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس نیو ورلڈ ڈس آرڈر کے نتیجے میں ملنے والے دھچکوں کو کس طرح برداشت کرتا ہے اور پھر نیو ورلڈ آرڈر کیلئے شروع ہونے والی نئی سرد جنگ میں اپنے آپ کو کہاں پر رکھتا ہے؟ پاکستان کا جو محل وقوع ہے وہ اس کی بدقسمتی بھی ہے اور خوش قسمتی بھی۔ اس محل وقوع نے پہلی سرد جنگ میں بھی اسے بڑی طاقتوں کی جنگ کا میدان بنا دیا اور اب بھی دنیا کے جن ممالک پر سب سے زیادہ دبائو آئے گا ان میں پاکستان بھی ہو گا۔ ماضی میں سوویت یونین کو روکنا مقصود تھا۔ چونکہ وہ افغانستان تک آ گیا تھا یوں پاکستان امریکہ کیلئے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا اور اب کی بار مقابلہ چین سے ہو گا جس کا پاکستان پڑوسی اور قریب ترین دوست ہے۔ امریکہ نے چین کے مقابلے کیلئے انڈیا کو چن لیا ہے اور وہ بھی پاکستان کا پڑوسی اور ازلی حریف ہے۔ دوسری طرف اس جنگ کیلئے ایک بار پھر افغانستان کو استعمال کیا جائے گا اور پاکستان اس کا بھی پڑوسی ہے۔ چونکہ فریقین ابھی اس سردجنگ کی تیاریوں میں لگے ہیں، اس لئے کھل کر وہ پاکستان سے ’’تم میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف‘‘ کے انداز میں مطالبہ نہیں کرنے لیکن اگر بصیرت اور اتحاد سے کام لیا جائے تو اپنے محل وقوع کو مصیبت کی بجائے غنیمت میں بھی بدلا جاسکتا ہے اور اپنی جغرافیائی حیثیت کو دونوں فریقوں سے فائدہ اٹھانےکیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب تک دنیا نیو ورلڈ ڈس آرڈر سے گزر رہی ہے پاکستان نئی سرد جنگ میں فریق بننے سے گریز کرے۔ علاوہ ازیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس نئی سرد جنگ کے گرم پہلوئوں کا میدان پاکستان یا افغانستان نہ بنیں۔

Back to top button