کیا تحریک انصاف کی نئی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم ہے؟
سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ اللّہ خان نیازی نے کہا ہے کہ ستم ظریفی ھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جب چاہا اپنی شرائط پر عمران کو استعمال میں رکھا۔ آج وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن میں جو نووارد امیدوار سامنے لائے گئے اور جن کے ذریعے لائے گئے ھیں ، وہ پچھلی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں اور عمران سے وفاداری میں، استواری کی شرط سے کوسوں دور بھی ہیں ۔ اپنے ایک کالم میں حفیظ اللّہ نیازی لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں اور صفات ہیں ۔ پہلا وصف یہ ھے کہ ،عمران نہ صرف دلیر ہے بلکہ دیدہ دلیری کا تڑکا بھی ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے سیاست میں نامساعد حالات یا بحرانی کیفیت سے نبردآزما ہونے کیلئے جو تدبر ، تدبر اور فہم چاہیے تھا ، وہ خانہ یکسر خالی ہے ۔ اگرچہ 25 اپریل 1996 میں کو ایجرٹن روڈ لاہور کے معروف ہوٹل میں ایک کنونشن نما پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کی باقاعدہ لانچنگ ہوئی۔ ہکا بکا کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ عمران کےتب کے ساتھیوں میں سے ایک بندہ بھی آج تحریک انصاف سے وابستہ نہیں۔ تنظیمی ابتری تنظیم سازی سے پہلے ہی اپنی دھاک بٹھا چکی تھی آج بھی تحریک انصاف کا بڑا بحران تنظیمی ہے۔ ۔ یوم پیدائش سے پہلے چند ماہ تک تو پارٹی کا جنرل سیکریٹری تک نہ بن سکا ۔ آنیوالے کئی سال تک جنرل سیکریٹری اور صوبائی تنظیموں کے اہم عہدوں پر نامزد گیاں ضرور ہوئیں لیکن فراوانی سے عہدیدار بدلتے رہے ۔ وجہ صاف ظاہر ھے کہ عمران کو ادراک ہی نہ تھا کہ سیاسی پارٹی کس بلا کا نام ہے؟ عمران خان 24 کے پورے سیاسی کیرئیر میں ایک بھی ایسا سیاسی فیصلہ نہ کر پائے جو باعث ندامت یا ناکام نہ رہا ہو ۔ اپنے ہر سیاسی فیصلےپر غلطی کا اعتراف بھی کیا اور مانا کہ ’’ہاں ! مجھے یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘ ، بعد از خرابی بسیار ، وطنی سیاست کو اپنی گرفت میں رکھنے والے عمران کے سیاسی فیصلے بد قسمتی سے اسکی اپنی سیاست کیلئے آج بھی سوہان روح ہیں ۔
حفیظ اللّہ نیازی بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پہلے باقاعدہ انتخابات 2002میں ہوئے ۔ لاہور کے ایک شادی ہال میں بمشکل دو تین سو افراد جمع ہوپائے، باقاعدہ ممبر شپ کا رواج تھا نہیں، جو کوئی بھی وہاں موجود تھا ، قومی اور صوبائی قیادت کا حقدار ٹھہرا۔ بد قسمتی سے 2002 کے عہدیداروں میں سے آج شاید ہی کوئی عمران کے قرب و جوار میں موجود ہو۔ البتہ آفرین ھے کہ حامد خان، پہلے سینئر وائس چیئرمین، نجیب ہارون ، فردوس نقوی آج بھی موجود ہیں ۔ پارٹی میں جب گنتی کے لوگ تھے تو بھی اندرونی تنظیمی لڑائیاں جھگڑے ، انتشار خلفشار پارٹی کی وجہ شہرت بنا ۔ الیکشن 2002 سے الیکشن 2008 کا زمانہ بہت ہی دلچسپ رھا ، نواز شریف اور بینظیر پاکستان میں تھے نہیں اور افغانستان پر امریکی یلغار جاری تھی ایسے میں عمران نے امریکہ مخالف مقبول موقف اپنایا تو میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا،سارا عرصہ ٹی وی پر چھائے رہے۔ بکھری اور بکھیڑوں میں پھنسی پارٹی تنظیم پر توجہ نہ پہلے دی تھی نہ اس دوران دے پائے ۔ بلکہ یوں کہیں کہ عمران کےاندر تنظیمی معاملات بارے ایک بے اعتنائی اور اکتاہٹ تھی ۔ 14 نومبر 2007 کو جب پہلی دفعہ گرفتار ہوئے تو پارٹی پر ایک کڑا امتحان آیا جس سے نبرد آزما ہونے میں وہ ناکام رہے۔اسی دوران ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ 18 نومبر کو عمران کے گھر پورے پاکستان سے پارٹی قائدین کو اکٹھا کیا کیونکہ ان تک عمران کا جیل سے لایا پیغام پہنچانا تھا ۔ دو درجن کے قریب چنیدہ رہنما تشریف لائے ۔ ابھی میٹنگ شروع ہوا چاہتی تھی کہ قائدین کی تُو تکار سے بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی ۔ راولپنڈی سے عمران کے ایک قریبی ساتھی اور معتمدِ خاص نے تحریک انصاف کے ایک بہت بڑے لیڈر جو آجکل اعلیٰ حکومتی عہدے دور ہیں پر حملہ کر دیا ۔ بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کراکے میٹنگ برخاست کرنا پڑی ۔
حفیظ اللّہ خان نیازی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف جب انتہائی محدود اور مختصر تھی تو بھی منتشر تھی ۔ 2011میں جب پارٹی ایک نئی مقبولیت سے متعارف ہوئی تب عمران کو پارٹی منظم کرنے اور سنجیدہ تنظیم سازی کا پہلی دفعہ اُبال آیا ۔ 2012میں عجیب الخلقت الیکشن کرانے کی ٹھانی مگر جن خطوط پر وہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانا چاہتے تھے ، اس سے پارٹی نے مزید تتر بتر ہونا تھا ۔اعر ایسا ہو بھی گیا ۔ 2013 کا انٹرا پارٹی الیکشن آج بھی انصافی سیاست کیلئے ایک ڈرائونا خواب ہے، 2013 کا ملکی الیکشن ہارنے کی بڑی وجہ ، پارٹی انتخابات ہی بنے ۔ 2013 کے الیکشن کو درست کرنے کیلئے، چند سال بعد دوبارہ پارٹی الیکشن کی ٹھانی تو وہ بھی سعی لاحاصل رہی ۔ بالآخر دوبارہ سے نامزدگیاں ہی کرنا پڑیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی الیکشن کا سوچا تب بھی ناکام رہے ۔ تب سے راوی چین لکھ رہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے چین چھین لیا۔ اب کے پارٹی الیکشن کے وقت عمران خود جیل میں ہیں ۔ الیکشن لڑنے سے قاصر ہیں ۔ جیل جانے سے مہینوں پہلے، بجائے اسکے کہ قیادت شاہ محمود قریشی سینئر وائس چیئرمین کو منتقل ہو جاتی۔ چند من پسند بندوں کو اجتماعی قیادت سونپی اور مراد سعید کو اپنا سیاسی وارث بنا نے کا عندیہ دے ڈالا۔ تنگ آمد بجنگ آمد جب الیکشن کمیشن نے انتخاب کروانے پر مجبور کیا تو جن لوگوں کو قیادت کیلئے سامنے لایا گیا، انکی پارٹی اندر مدت ملازمت ڈیڑھ سال سے کم ہے۔ حامد خان، نجیب ہارون اور فردوس نقوی جیسے پرانے لوگ بھی دم بخود ہیں کہ ایسا بہیمانہ فیصلہ کیوں کر ڈالا۔ ستم ظریفی اسٹیبلشمنٹ نے جب چاہا اپنی شرائط پر عمران کو استعمال میں رکھا۔ آج نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں