پاکستان میں اقلیتی نشستیں چند گھرانوں تک محدود کیوں ہوگئیں؟
قیام پاکستان کے 76 برس بعد اب صرف مخصوص اقلیتی گھرانے ہی قومی و صوبائی اسمبلی تک پہنچ پاتے ہیں، جبکہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے دلت ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون و انصاف مقرر کیا تھا۔پاکستان کی مجموعی آبادی کا 3.53 فیصد حصہ اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ملک کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کیلئے خصوصی نشستیں رکھی گئی ہیں، قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کی 371 نشستوں میں سے آٹھ نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ صوبہ سندھ کی 168 نشستوں میں سے نو، بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستوں میں سے 3 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی 115 نشستوں میں سے چار نشستیں اقلیتوں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ہندو صوبہ سندھ میں آباد ہیں جو صوبے کی مجموعی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں۔سندھ سے ہندوؤں کے مخصوص اور اعلیٰ برادریوں سے تعلق رکھنے والے خاندان دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہیں۔ مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے سابق رُکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ہوں یا پاکستان مسلم لیگ ن کے کھئیل داس کوہستانی دونوں کا خاندان صوبہ سندھ اور وفاق میں اقتدار کا حصہ رہا ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف سبھی انہی گھرانوں کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دیتی آئی ہیں۔صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے سابق ایم این اے کھئیل داس کوہستانی کا گھرانہ بھی اقتدار کے ایوانوں کا اہم شراکت دار ہے۔صحافی اور تجزیہ کار سید مزمل شاہ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان میں اقلیتوں کے لیے علیحدہ الیکٹوریٹ نہیں ہے، اس لیے چند گھرانوں کو ہی ہمیشہ اقتدار میں شراکت داری ملتی ہے۔انھوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ضیاالحق کے دور میں ایک پالیسی بنائی گئی تھی جس کے تحت غیر مسلم ووٹرز کو علیحدہ الیکٹوریٹ میسر تھا جس کو بعد میں ختم کر دیا گیا۔اب سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ انہوں نے کس اُمیدوار کو مخصوص نشست پر ٹکٹ جاری کرنی ہے۔پاکستان میں بسنے والی 40 لاکھ اقلیتی آبادی پہلے سے ہی بہت سے حقوق سے محروم ہے۔ چنانچہ مخصوص گھرانوں سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہچنے والے اقلیتی ارکانِ اسمبلی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے مزید مسائل پیدا کر رہے ہیں۔بلوچستان سے مخصوص نشست پر منتخب سینیٹر دنیش کمار سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں کو برابری کی سطح پر مخصوص نشستوں کے لیے حقوق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے ہر صوبے سے اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ہونی چاہئیں۔اقلیتی برادری کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دینے کے لیے اُن کی قابلیت دیکھی جانی چاہیے نہ کہ اُن کی ذات اور سیاسی اثرورسوخ۔‘دنیش کمار نے بتایا کہ ’بلوچستان میں اقلیتی نشستوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ صوبے کی کل آبادی میں سے 1.5 فیصد اقلیتی برادری پر مشتمل ہے اور سب کو یکساں حقوق میسر ہیں۔سندھ کے علاقے تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایڈووکیٹ سروان بھیل کہتے ہیں کہ ’95 فیصد ہندو برادری پر 5 فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خاندان ہی قابض ہیں۔سروان بھیل نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’سینیٹر رمیش کمار کے سسر سمیت خاندان کے دیگر افراد بھی سندھ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ملک کی سبھی جماعتوں میں شامل ہندو سیاستدان ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار ہیں۔ یہ لوگ اپنا بزنس بچانے کے لیے اقلیتوں کا نام استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والے ہندو دلت تھے۔ ہم پاکستان بننے سے پہلے کے سندھ میں آباد ہیں۔ میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سندھ سے مخصوص نشست پر ایم این اے کا اُمیدوار ہوں۔‘انہوں نے سینیٹر رمیش کمار پر الزام لگایا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان تحریکِ انصاف
سے مخصوص نشست پر ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔