نواز شریف کی جلد واپسی کا مطالبہ زور کیوںپکڑنے لگا؟

نواز شریف کی وطن واپسی اور استقبال کی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی وطن پر استقبالی جشن کو بڑا سیاسی ایونٹ بنانے اور بھرپور پاور شو کرنے کیلئے پارٹی رہنماؤں کو ذمہ داریاں تفویض کر دی ہیں۔ دوسری جانب تازہ پیشرفت کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 15 اکتوبر کو چارٹر طیارے کی بجائے عام پرواز کے ذریعےلندن سے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب ملکی معاشی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں موجود لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اب کی بار نواز شریف کی وطن واپسی 15اکتوبر سے مزید تاخیر کا شکار ہوئی تو اس سے پارٹی کو شدید نقصان پہنچے گا۔

ذرائع مسلم لیگ ن کے مطابق مسلم لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف 15 اکتوبر کو چارٹرڈ کے بجائے مسافر طیارے کے ذریعے لندن سے پاکستان کیلئے روانہ ہوں گے اور وہ لاہور ایئرپورٹ پر اتریں گے۔ دوسری جانب پاکستان میں ان کی صاحبزادی اور پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز ان کے استقبال کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے اسلام آباد کے بجائے لاہور آنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی وطن واپسی چارٹر طیارے کی بجائےعام پرواز سے ہوگی۔پارٹی ذرائع کے مطابق نواز شریف نے مرکزی قیادت کو استقبال کے لئے ٹاسک سونپ دیا ہے، مریم نواز استقبالی معاملات کی نگرانی کر رہی ہیں اور تنظیمی عہدیداران کو استقبالیہ جلسے میں زیادہ سے زیادہ لوگ لانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب لیگی حلقوں میں ملک میں عام انتخابات بارے طبل جنگ بجنے کے بعد موجودہ ملکی معاشی صورتحال میں نواز شریف کی فوری وطن واپسی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں موجود لیگی قیادت  تسلیم کرتی ہے کہ آنے والے مہینوں میں پارٹی کے انتخابی بیانیے کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کوئی واضح سمت نہیں ہے لیکن پارٹی کے سینئر اراکین واضح ہیں کہ ان کا ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ انہیں طوفان سے گزارلے گا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت کے دورِ اقتدار میں کیے جانے والے فیصلوں کی قیمت بجلی کے بھاری بلوں کی صورت ادا کرنے پر ملک بھر کے عوام کی جانب سے مسلم لیگ (ن) شدید غصے اور تنقید کی زد میں ہے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہم روزانہ اپنے حلقوں میں ہوتے ہیں، ہم اس بڑھتے اخراجات پر عوامی غصے کا سامنا کر رہے ہیں، ہم لوگوں سے بحث کر رہے ہیں، اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں اور تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، ہم بھاگ نہیں رہے یا لوگوں کا سامنا کرنے کے لیے کسی کی آڑ نہیں لے رہے،۔ ہم میدان میں ہیں، صورتحال چاہے اچھی ہو یا بری، ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں۔لیکن ملک میں جاری مہنگائی اور معاشی بحران پر عوام کا غصہ عروج پر پہنچ چکا ہے، مسلم لیگ (ن) کے سابقہ اتحادیوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آپ کو عوام کے ہم آواز بنانے کی کوشش میں پی ڈی ایم حکومت کے آخری ایام میں اٹھائے گئے اقدامات سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے۔

خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے صورتحال سنگین اور تشویشناک ہے لیکن ان کی پارٹی اس سے پہلے کئی طوفانوں کا سامنا کر چکی ہے اب بھی دلیری سے موجودہ صورتحال کا سامنا کرینگے انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ دشمنی کا سامنا کیا، مشرف دور بھی دیکھا، ہاں لوگ ہم پر تنقید کر رہے ہیں لیکن ہم ان کی شکایات سن رہے ہیں اور اگر موقع دیا جائے تو ہم اس صورتحال سے بالکل نکل سکتے ہیں۔

لیکن خواجہ آصف کے تمام ساتھی ان سے متفق نہیں ہیں، پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی لندن میں موجودگی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی، نگراں سیٹ اپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد شہباز شریف لندن پہنچ گئے جبکہ نواز شریف 2019 سے ہی لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موجود لیگی رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم اور پارٹی رہنما کی حیثیت سے شہباز شریف کو فوری واپس آنا چاہیے، انہیں یہاں آکر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ آج ان مشکلات کا کیوں سامنا کر رہے ہیں، اس وقت ملک چھوڑ کر جانا کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں موجود پارٹی قیادت یہاں ان چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہم نے محدود وقت میں حاصل کیں، انہیں بھی کرنی چاہیے، کوئی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ملک میں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم 16 ماہ حکومت میں تھے، ہمیں عوام کو بتانا چاہیے کہ ہماری کارکردگی کیا تھی، ہم نے آج عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کیے؟ ہم اپنے آپ کو حقیقت سے الگ نہیں کر سکتے، اگر ہم آج لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے تو وہ ہمیں بیلٹ باکس میں جواب دیں گے، یہ کرنا ضروری ہے۔

دوسری جانب لیگی رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ بنیادی سوال جو ہمیں لوگوں سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ 2018 میں جب پاکستان ٹیک آف کر رہا تھا تو ہمیں کریش لینڈ پر کس نے مجبور کیا؟انہوں نے کہا کہ ہماری موجودہ پریشانی کی جڑیں پچھلے 16 مہینوں میں نہیں ہیں بلکہ 2018 کے اس حادثے میں ہیں، اگر آپ نیچے کی طرف گر رہے ہیں اور رفتار کم کرنے کے لیے بریک لگاتے ہیں، تب بھی آپ گریں گے، اگر ہم اقتدار نہ سنبھالتے تو پاکستان آئی ایم ایف کے ان معاہدوں کی بدولت دیوالیہ ہو جاتا جس کا عمران خان نے ہمیں پابند کیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس آئیں گے کیونکہ جب لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا گیا تو وہ اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔انہوں نے کہا کہ یقیناً ہمیں اپنے گزشتہ برس کے اقدامات کی قیمت خود ادا کرنی ہوگی، ہم نے اس وقت انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور حکومت کرنے کا فیصلہ کیا، شاید کچھ وقت گزرنے کے بعد اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں۔

Back to top button