کیا نگراں حکومت بجلی کے بلوں میں کمی کر سکتی ہے؟

آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی پاکستانی حکومت بجلی صارفین کی جانب سے ملک گیر احتجاج، بجلی کی بل جلائے جانے کے باوجود آئی ایم ایف کے تعاون کے بغیر بجلی کے بلوں میں ذرا برابر بھی کمی نہیں کر سکتی ہے، بجلی کے بل کم کرنے کا کام بھی عوام کو ہی انجام دینا ہوگا جس کیلئے بجلی کے استعمال میں کمی لانا ہوگی۔ماہرین کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے حکومت کو طویل المدتی پالیسیوں کو اپنانے، توانائی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کرنے اور سیاسی عزم کے ساتھ بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر خاقان نجیب نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے توانائی کے شعبے کو حکومتی ڈومین سے نکالنا ہوگا۔ ان کے بقول حکومت کا ہی بجلی خریدنا اور حکومت کا ہی بجلی پیدا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ڈاکٹر خاقان کے مطابق صرف پچھلے بیس مہینوں میں دو دفعہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے اور ایک مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتیں بڑھیں ہیں، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔توانائی کے امور کے ایک ماہر خرم شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بجلی کے بلوں کے ذریعے موصول کیے جانے والے متعدد ٹیکس بھی بل کی رقم میں چالیس فی صد اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح تقریبا دس فیصد صارفین بجلی کا بل نہیں دیتے اور بجلی کے ترسیلی نظام کے لائن لاسز بھی تقریبا بیس فی صد کے قریب ہیں، ”فاٹا، پشاور، سکھر اور حیدرآبار سمیت جہاں جہاں بھی لوگ بجلی کا بل ادا نہیں کرتے وہ رقم بھی ان صارفین پر ڈال دی جاتی ہے۔خرم شہزاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پن بجلی زیادہ بننے کی وجہ سے اس سال بجلی کی پیداواری لاگت میں بائیس فی صد کمی ہوئی ہے لیکن کئی دوسرے عوامل کی وجہ سے صارفین کو بجلی مہنگی مل رہی ہے، کراچی میں بجلی کا ایک کمرشل یونٹ ٹیکسوں سمیت ستتر روپے کا پڑتا ہے اور بغیر ٹیکسوں میں تریپن روپے کا ہوتا ہے۔خرم شہزاد نے بتایا کہ اگر بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کر دیں تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں بیس سے تیس فی صد کمی آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریوینیو میں آنے والی اس کمی کو ان سیکٹرز پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جا سکتا ہے، جو یا تو ٹیکس ہی نہیں دیتے یا پھر بہت ہی کم دیتے ہیں۔توانائی کے امور کے متعدد ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سرکاری اہلکاروں کے لیے مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے سے مسئلے کے دیرپا حل میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی کیونکہ بجلی کی یہ مقدار محدود ہے۔ انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ سینئر صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فری الیکٹرسٹی کے خاتمے سے عوام کو اس بات کا اطمینان ضرور ہوگا کہ وہ مشکلات کا اکیلے سامنا نہیں کر رہے ہیں، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نجی پاور پلانٹس کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہئے۔ انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ صحافی منصور احمد کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی بنا کر سستی بجلی حاصل کرنے پر اصرار کریں گے تو پاور سیکٹر برباد ہو جائے گا۔ ان کے بقول بلا سوچے سمجھے عوامی مظاہرے ایک سازش ہیں اور ان کے پیچھے تاجروں اور صنعت کاروں کا ایک ٹولہ ہے، جو انہیں فنانس کر رہا ہے۔پاکستان میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف شہریوں کا احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے، فیصل آباد میں ایک مزدور نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر خود کشی کر لی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے بجلی کمپنیوں کے دفاتر کا گھیراؤ کرنے، سڑکوں کو بلاک کرنے اور احتجاجی
جڑواں بہنوں کے ہاں ایک ہی اسپتال، ایک ہی وقت میں بچوں کی پیدائش
مظاہروں میں بجلی کے بل جلانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔