ملاقاتوں کے باوجودپاک افغان تعلقات میں بہتری کاامکان کیوں نہیں؟

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار اور اعلیٰ سطحی وفود کے تبادیوں کے بعد پاکستان اور افغانستان میں تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں تاہم مبصرین کے مطابق ماضی قریب کی تلخیوں اور خدشات کی وجہ سے تاحال دونوں ممالک ایک دوسرے پر کھل کر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کشیدگی اور کھچاو موجود ہے۔ دونوں ممالک میں اختلافات کی خلیج کا فوری پُر ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بنیادی مسئلہ تحریک طالبان پاکستان اور دہشتگردی ہے جس پر افغان حکومت فوری ٹھوس اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مہاجرین کی واپسی اور تجارت کے مسائل بارے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ کے خواہشمند تو ہیں تاہم افغانستان میں چھپے بیٹھے دہشتگرد گروپوں اور ان کے ماسٹر مائندز کے خلاف کارروائی تک پاک افغان تعلقات کے مزید پروان چڑھنے کے امکانات معدوم نظرآتے ہیں۔
تاہم سابق سفارتکار نجم الثاقب کا کہنا ہے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے معاملات طے ہونے والے راستے پر چل پڑے ہیں۔ انھوں نے دونوں ممالک کے مباین اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت سے دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ اِس لیے پاکستان اور افغانستان کو تجارت کی بحالی اور تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔
نجم الثاقب کے مطابق افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بنیادی مسئلہ خوارج اور تحریک طالبان پاکستان ہے، تاہم اب افغان طالبان خوارجیوں کو پاکستان میں ہونے والے شرپسندانہ کارروائیوں سے روکنے کی جانب مائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک پوری دنیا نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا دنیا طالبان حکومت کو جن وجوہات کی بنا پر تسلیم نہیں کرتی اُن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا شامل ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ مُلک ہے اور یہ بھارت کی طرح کا ہمسایہ مُلک نہیں کہ ہم کہیں کہ معاملات جب تک 5 اگست 2019 کی سطح پر واپس نہیں جاتے تو کوئی تجارت نہیں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کی بات ضرور کرنی چاہیے اور تجارت کو سیاست اور سفارت سے دور رکھنا چاہیے۔ سابق سفارتکار کے بقول حال ہی میں افغانستان نے ترکیہ، چین اور دیگر ممالک کے ساتھ کان کنی کے شعبوں میں اربوں ڈالر کے معاہدے کیے ہیں، ہمیں بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر ایسے معاہدے کرنے چاہییں۔
تاہم پاکستان کے افغانستان میں سابق سفیر بریگیڈیئر اسحاق خٹک کا دونوں ممالک کے تعلقات بارے کہنا تھا کہ افغان طالبان حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغان مہاجرین کی واپسی ہے، اور اِسی وجہ سے اُن کے لہجے میں تبدیلی بھی آئی ہے اور مذاکرات کی طرف پیش رفت بھی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ بات چیت تو پہلے بھی ہوتی رہتی تھی، صادق خان وہاں آتے جاتے تھے، وہ لوگ بھی آتے تھے لیکن حالیہ عرصے میں اعلیٰ سطحی وفود کی سطح پر بات چیت پہلی بار ہوئی ہے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ بات چیت اور مذاکرات کا تسلسل بڑھ گیا ہے، جس سے نظر آتا ہے معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں، سابق سفیر کے مطابق پاکستان کا بنیادی مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے جس کے حل کے لیے افغان طالبان نے پہلے بھی وقت مانگا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسحاق ڈار کے دورے کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پٹہ کیسے ڈالتے ہیں۔
دوسری جانب بعض دیگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاک افغان معاملات کی بہتری کا انحصار امریکا پر ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور پاکستان پر کیا شرائط عائد کرتا ہے، جس طرح سے وہ بگرام ایئربیس کے لیے کوشش کررہا ہے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو معاملات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے فخر کاکا خیل نے کہاکہ متوقع طور پر مذاکرات میں کچھ یقین دہانیاں پاکستان نے کروائی ہیں اور کچھ یقین دہانیاں افغان حکام کروا رہے ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے معاملات تیزی سےآگے بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے۔ تاہم ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکا پاکستان پر کون سی شرائط عائد کرتا ہے، کیونکہ جس طرح سے امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مشتاق نظر آتا ہے اور پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت بھی نہیں کر رہا، اس کے بدلے میں اسے کچھ چاہیے ہوگا، اگر امریکہ افغانستان میں کسی کردار میں واپس آتا ہے تو دونوں ملکوں کے تعلقات درست نہیں ہو سکتے۔