غیر قانونی طریقے سے باہر جا کر واپس آنے والے پاکستانی مشکل میں

پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے اور پھر یورپ داخل ہونے میں ناکامی پر واپس پاکستان آنے والے شہریوں کی نشاندہی کے لیے ایف آئی اے اور امیگریشن حکام نے سخت جانچ پڑتال کا عمل شروع کر دیا ہے، اور ایسے مشکوک افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے جنکے پاسپورٹوں پر جاتے وقت ایگزٹ کی مہر نہیں لگی ہوئی تھی۔ یعنی بیرون ممالک سے پاکستان آنے والے اُن شہریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جن کا پاکستان سے بیرون ملک جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
امیگریشن اینڈ پاسپورٹ حکام نے بتایا ہے کہ عمومی طور پر جو شہری پاکستان سے کسی غیر قانونی راستے سے بیرون ملک جاتے ہیں، اُن کا پاکستانی ائیرپورٹس سے باہر جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر کوئی شہری بیرون ملک سے واپس آئے اور اُسکے سفری ریکارڈ میں یہاں سے باہر جانے کا ثبوت پاسپورٹ پر ایگزٹ سٹیمپ کی صورت میں موجود نہ ہو تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈنکی لگا کر غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک گیا تھا۔
حکام کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں ایئرپورٹ پر ایسے شہریوں کے لیے ایس او پیز کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔ کوئی شہری اگر واپسی پر اپنی سفری دستاویزات اور ریکارڈ سے یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ قانونی راستے سے ہی پاکستان سے باہر گیا تھا تو اُس کو گرفتار کر کے اسکے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
اُردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس پر بیرون ملک سے واپس آنے والے ایسے درجنوں شہریوں کو حراست میں لے کر اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی گئی ہے جن کا ملک سے باہر جانے کا ریکارڈ نہیں تھا۔ تاہم اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر جانے والے شہری قانونی طور پر اپنی ملک واپسی کیسے ممکن بناتے ہیں؟ تارکین وطن کے حوالے سے کام کرنے والے وکیل اور امیگریشن کے ماہر یاسر شمس بتاتے ہیں کہ ’کوئی پاکستانی شہری غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے باوجود خود کو وہاں قانونی طور پر رہنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ ’ایسے شہری بیرون ملک جا کر کسی نوکری کا پرمٹ حاصل کر لیتے ہیں یا وہ کسی مقامی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں۔ ان دو طریقوں سے وہ خود کو قانونی طور پر کسی دوسرے ملک کا رہائشی بنا لیتے ہیں، البتہ اگر ایسے شہری باہر جا کر سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس صورت میں اُن کی پاکستان واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی پناہ کی درخواست میں اکثر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق یے۔
ڈپلومیٹک اینڈ امیگریشن لاء ایکسپرٹ بیرسٹر ساجد مجید غیرقانونی طریقے سے باہر جانے والے شہریوں کو پاکستان واپسی پر سخت جانچ پڑتال سے گزارنے کے عمل کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر شہری غیرقانونی طور بیرون ملک جا کر واپس پاکستان آنا بھی ممکن بنا لیں تو پھر وہ دوسرے شہریوں کو بھی اسی راستے کے ذریعے بیرون ملک جانے کی ترغیب دیں گے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اگر کوئی شخص غیرقانونی طریقے سے باہر چلا بھی جاتا ہے تو کم از کم واپسی پر اُسے سکیورٹی پروٹوکول سے ضرور گزرنا پڑے تاکہ اس کا احتساب ہو سکے۔