کیا مری میں مرنے والے اپنی موت کے خود ذمہ دار ہیں؟

سینئر صحافی نصرت جاوید نے حکومت وقت کو مری کے المناک سانحہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم اور انکے وزرا اپنی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے برفباری میں پھنس کر مرنے والوں کو ہی سانحے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج سے کہیں زیادہ شدومد سے صحافت کے نام پر ہماری ذہن سازی پر مامور لوگوں کا گروہ یہ اصرار کئے جارہا ہے کہ مری کی حالیہ برف باری کے دوران جو المناک واقعات ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار فقط ہمارے جاہل عوام ہیں اور اس میں حکومت کا رتی بھر بھی کوئی قصور نہیں۔ عوام کا قصور یہ ہے کہ تفریحی مقامات کی جانب گاڑیوں میں بچوں کو لاد کر روانہ ہونے سے قبل وہ موبائل فونوں پر محکمۂ موسمیات کی فراہم کردہ تازہ معلومات سے رجوع نہیں کرتے۔ پھر جب وہ برف میں دھنس جاتے ہیں تو حکومت کو اپنے پر نازل ہوئی آفت کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوجاتے ہیں۔

طلعت حسین کہتے ہیں کہ یوں سفاکانہ رعونت سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نمودار ہوئی صاف ستھری اورمستعد انتظامیہ کو سیاپا فروشوں سے بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے مجھے آپ کو شاید یاد دلانا بھی ضروری نہیں کہ مری میں شدید برف باری کی وجہ سے پیدا ہوئی مشکلات پر دہائی مچاتے صحافی ماضی کے بدعنوان حکمرانوں کے پالتو رہے ہیں۔ ان کے خیالات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔بدعنوان سیاستدانوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے وہ بلکہ نفرت وحقارت کے مستحق ہیں۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ’’صحافتی معیار‘‘ طے کرنے کی بحث میں الجھنے کے بجائے میں نہایت عاجزی سے اعتراف کرلیتا ہوں کہ ہمارے عوام اپنا رانجھا راضی رکھنے کو ہمیشہ بے چین رہتے ہیں۔ پہاڑوں پر ہوئی برف باری بھی ایسا ہی ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ اس سے بھر پور نداز میں لطف اندوز ہونے کی خواہش میں ہمارے جاہل عوام کسی بھی نوع کی احتیاط برتنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ سمجھ بوجھ سے کامل محروم اور بچگانہ غفلتوں کی مبینہ طورپر عادی ہوئی خلق خدا مگر مائی باپ کہلاتی سرکار کی رعایا بھی تو ہے۔

بقول نصرت جاوید سوال یہ اٹھتا ہے کہ سخت گیر والد یا استاد کی طرح ہماری سرکار نے مری میں اپنی موجودگی کس انداز میں دکھائی ہے۔
ہفتے کی سہ پہر سے رات گئے تک مجھے کئی سرکاری افسر رابطہ کرتے رہے۔ان کی اکثریت شہباز شریف کی حکومت کے دوران پنجاب میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہی ہے۔اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل وہ مجھے طنزیہ طورپر یاد دلاتے کہ میں شہباز شریف کی ’’گورننس‘‘کا اپنی تحریروں میں مذاق اڑاتا رہا ہوں۔ میرے اعتراف گناہ کے بعد مجھے تفصیل سے بتایا جاتا کہ موصوف کے دور میں برف باری کے سیزن سے نبردآزما ہونے کے لئے کونسے اقدامات لئے جاتے تھے۔ ان اقدامات کو ہر صورت بروئے کار لانے کے لئے پنجاب کے دارالحکومت میں کس نوع کا مانیٹرنگ نظام بھی یقینی بنایا جاتا تھا۔ چند افسروں نے اس ضمن میں پرویز الٰہی دور کے کچھ واقعات بھی سنائے۔ نصرت کہتے ہیں کہ سیاسی عہدوں پر ماضی میں فائز رہے افراد کی طرز حکمرانی کا موجودہ دور کے صاف ستھرے حکمرانوں سے تقابل میرا درد سر نہیں۔

دوٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے بھی یہ حقیقت مگر عرصہ ہوا دریافت کررکھی ہے کہ ’’گورننس‘‘ بنیادی طورپر پیش بینی اور پیش قدمی کا نام ہے۔ہماری سرکار نے یہ بھی طے کررکھا ہے کہ پاکستان کے عوام جاہل ہیں۔کسی بھی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنی منزل کا موسمی حال ڈیجیٹل دور میں بھی جاننے کے عادی نہیں۔مناسب تیاری کے بغیر ’’موج میلہ‘‘ کے لئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔یہ طے کرلینے کے بعد مائی باپ کہلاتی سرکار کے لئے مزید لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ سانحات کے تدارک کے لئے ازخود سخت گیر رویہ اختیار کرے۔

نصرت کے بقول ہماری سرکار کی ترجیح لیکن فقط یہ ثابت کرنا ہے کہ دورِ حاضر کی ایمان دار قیادت کی وجہ سے وطن عزیز میں خوش حالی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مری میں برف باری شروع ہوتے ہی وہاں پہنچنے کو بے چین گاڑیوں کے ہجوم کو خوش حالی کا بھرپور اظہار بتاتے ہوئے خود کو لذت دیتی رعونت کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا۔ برف میں دھنسی گاڑیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں توخوش حالی کا ورد تھوڑی دیر کو بھلانے کو مجبور ہوئے اور المناک واقعات کی ذمہ داری عوام کے سرتھونپ دی گئی۔ ذہن سازوں نے اسے مزید حقارت سے اجاگر کیا۔ ’’گورننس‘‘ سے جڑے بنیادی سوالات اٹھانے کی ضرورت کسی نے محسوس ہی نہ کی۔

مری میں اس بار ریکارڈ برف باری ہرگز نہیں ہوئی۔ تقریباَ ایک دہائی کے بعد اس کی شدت میں اضافہ یقینا ہوا ہے۔ راولپنڈی کی قربت اور اس شہر کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی شاہراہ پر واقعہ مری برطانوی دور ہی سے پنجاب کا مشہور ترین ہل اسٹیشن رہا ہے۔ 1980کی دہائی سے ہمارے دیگر شہروں کی طرح مری بھی بہت تیزی سے جدید ترین شہر میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ جو ’’ترقی‘‘ ہوئی اس نے مری کے روایتی طرز زندگی کو کامل طورپر بدل دیا۔ 1980کی دہائی سے قبل ہجوم ہمیشہ موسم گرما میں اس شہر کا رُخ کیا کرتے۔ نئے زمانے نے سردیوں میں ہوئی برف باری کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی خواہش بھی اُکسانا شروع کردی۔

پاکستانی مری میں مریں یا کہیں اور، قصور انہی کا ہے

رواں صدی کے آغاز سے گرمی اور سردی کے ’’سیزن‘‘ کے مابین تفریق کا تقریباَ خاتمہ ہوچکا ہے۔ نئے تقاضوں کے مطابق مقامی انتظامیہ سوچ سمجھ کر تیار کئے ایس او پیز کے مطابق برف باری کے دوران بھی زندگی کو رواں رکھنے کی عادی ہوئی۔ مری اور اس کے داخلی اور خارجی راستوں کو کھلا رکھنے کے لئے برفباری سے قبل مختلف مقامات پر سڑکوں کو برف سے صاف رکھنے کی خصوصی گاڑیاں مختلف مراکز میں کھڑی کردی جاتیں۔ اس کے علاوہ قدرتی نمک کے ڈھیر بھی کئی مقامات پر ذخیرہ کئے جاتے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ حالیہ برف باری کی شدت شروع ہونے سے قبل کونسی ایسی سرکاری خط وکتابت ہوئی جس کے ذریعے لاہور میں بیٹھے اعلیٰ ترین افسروں نے مری میں تعینات افسروں سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ برف باری کی شدت سے نبردآزما ہونے کے لئے کونسے مقامات پر سڑک کو برف سے صاف کرنے والی کتنی گاڑیاں ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لئے کھڑی کی گئی ہیں۔ قدرتی نمک کے ڈھیر کونسے مقامات پر کس تعداد میں ذخیرہ ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کئی متحرک ساتھیوں کو ا بالا سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کو اُکسایا۔ لیکن میری اور آپ کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس ضمن میں ہوئی کسی سرکاری خط وکتابت کا ریکارڈ حاصل نہ کر پائے۔

یہ حقیقت اگرچہ بتدریج عیاں ہو رہی ہے کہ حالیہ برف باری کی ممکنہ شدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کئی برس قبل تیار ہوئے ایس او پیز پر کماحقہ عمل نہیں ہوا۔ جو میں سوچ رہا ہوں اگر واقعتا ایسے ہی ہوا ہے تو سانحی مری میں غفلت کے ذمہ داروں کی نشان دہی لازمی ہے۔ ایسا مگر ہوگا نہیں کیونکہ کوئی بھی حکومت خود کو کبھی مجرم قرار نہیں دیتی۔ لہذا ایسے عالم میں مرنے والوں کو ہی اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔

Back to top button