کیا پرویز رشید نے صحافیوں کو محاورتاً گالیاں دیں؟

مسلم لیگی رہنما مریم نواز شریف اور لیگی رہنما پرویز رشید کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو منظر عام پر آئے کافی روز گزر گئے لیکن ذرائع ابلاغ میں اس پر اب بھی بحث جاری ہے جس کی بنیادی وجہ پرویز رشید کی جانب سے اپنی گفتگو میں چند یوتھیے صحافیوں کو پنجابی میں دی جانے والی گالیوں پر معافی مانگنے سے انکار ہے۔

صحافتی تنظیموں کی جانب سے مریم نواز اور پرویز رشید سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنی لیک ہونے والی گفتگو میں جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں بیٹھنے والے حسن نثار اور ارشاد بھٹی کے بارے میں نامناسب الفاظ ادا کرنے پرمعذرت کریں۔ لیکن دوسری جانب لیگی رہنماؤں کا مؤقف ہے کے پہلے ان کی پرائیویٹ گفتگو کو خفیہ طور پر ریکارڈ کرکے لیک کرنے والے معافی مانگیں۔ پرویز رشید نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میں معافی نہیں مانگوں گا اور اگر کسی صحافی کو زیادہ مسئلہ ہے تو وہ پولیس میں میرے خلاف رپورٹ درج کروا دے۔

اس آڈیو ٹیپ کے سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل سمیت متعدد لوگوں نے صحافیوں کے خلاف نازیبا گفتگو کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی آڈیو میں مریم نواز نے سینیئر صحافیوں کے بارے میں بہت نازیبا کلمات استعمال کیے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے پر ہماری صحافتی تنظیمیں اور پریس کلبز خاموش کیوں ہیں۔ لیکن شاید انہیں علم ہی نہیں کہ صحافتی تنظیموں نے پرویز رشید اور مریم نواز کے الفاظ پر احتجاج بھی کیا ہے اور معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس آڈیو ٹیپ کے سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ نواز پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’اس آڈیو کو جتنا میں نے سنا ہے اس میں مریم نواز نے کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی لیکن پروز رشید صاحب نے یہ کہا ہے کہ ہمارے اوپر کتے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہا کہ آپ کو پتا ہے کہ ہماری پنجابی محاوراتی زبان ہے۔ ہمیں لوگ آ کر کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں پروگرام کیا اس میں فلاں آپ کے خلاف بھونڈا ہے۔ ممکن ہے پرویز رشید سے بھی کسی نے ایسے کہا ہو اور انہوں نے انہی الفاظ میں یہ دیرا دیا ہو۔ ورنہ پرویز رشید تو بہت شریف النفس آدمی ہیں۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ برس 16 جون کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور اس دوران گالیوں کا استعمال بھی ہوا۔ناس واقعے کے بعد جب مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر سے گالیوں کے استعمال سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں فوری طور پر جواب دیا کہ ’یہ پنجاب کا کلچر ہے‘ اور پھر یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے آفیشنل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی یہ ویڈیو پوسٹ کی گئی اور اس پر تنقید کی گئی۔ اس وقت مسلم لیگ نواز کے ایک رہنما عابد شیر علی نے بھی ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ’مجھے روحیل اصغر کے ان خیالات سے شدید اختلاف ہے اور میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘

اس حوالے سے اردو نیوز نے پنجابی زبان کے ادیبوں اور مصنفین سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کہ کیا گالی پنجاب کا کلچر ہے یا یہ پنجابی زبان کا لازمی جزو ہے؟ پنجابی زبان کے ممتاز فکشن نگار نین سُکھ کا کہنا تھا کہ ’دنیا کی ہر زبان میں گالی موجود ہے اور اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جو آپ کا مخالف ہے، آپ اس کے لیے ایسی آواز کا ذکر کرتے ہیں جو آپ کو ناپسند ہو۔‘
’گالی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ پنجابی کا کلچر ہے، درست نہیں، محاورے کا استعمال دنیا کی ہر زبان میں ہوتا ہے۔‘
نین سکھ نے میاں محمد بخش کا ایک شعر بھی سنایا:
خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمدا کتیاں اگے دھرنی

پنجابی زبان کے ممتاز لکھاری اور دانشور مشتاق صوفی کہتے ہیں کہ ’دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں کہ جس میں گالیاں موجود نہ ہوں۔‘ صوفی کے بقول ’گالی پوری دنیا کے سماج کے کلچر کا حصہ ہے۔ یہ خاص قسم کے غصے کے نکاس کا طریقہ ہے جسے دوسرے شخص کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی اس سے آدمی کا کتھارسس ہوجاتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اپنی زبان میں گالی کا فوری اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس شخص کے لاشعور اور وجود کا حصہ ہوتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجابی اپنی زبان سے پیار نہیں کرتے، وہ اس زبان کا خاص طور پر غصے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اس کے بارے میں منفی تأثر بنا ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’میں نے 2002 میں سچل سٹوڈیو میں ایک رسالہ دیکھا، جس میں خبر تھی کہ فرانس کے کسی شہر میں شیکسپیئر کا ڈراما اس لیے بین کر دیا گیا کہ وہ بڑا فحش اور گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ گالی زبان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ سماج کا حصہ ہے اور مختلف طبقے اس کا مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں۔

’پنجابیوں نے چونکہ اپنی زبان چھوڑ رکھی ہے، اس لیے اس حوالے سے طبقاتی تعصب بھی پایا جاتا ہے۔‘
پنجابی زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے کوشاں سیاسی و سماجی کارکن اور پبلشر امجد سلیم منہاس کا موقف بھی کم و بیش ایسا ہی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں ’سیاست، صحافت اور سماجیات میں مہذب زبان استعمال کرنی چاہیے۔‘ ان کیا کہنا تھا کہ ’دنیا کی ہر زبان کے انتہائی مقامی لہجے میں گالیوں کا استعمال ہوتا ہے بلکہ انگلش لٹریچر، فلم اور میوزک میں آپ کو ایسے الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔‘

سیاست میں استعمال ہونے والی زبان پر بات کرتے ہوئے انہوں اپنے والد کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار مولانا مودودی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں لفظ ’مرحوم‘ لکھا جو ان کے نزدیک غیر مہذب لفظ تھا۔ پھر مسلم لیگیوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کیا کیا الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اظہار کی اس سطح پر نہیں اترے۔‘ امجد سلیم منہاس سمجھتے ہیں کہ ’ہمیں اجتماعی اظہار کے معاملے میں اچھی مثالوں کی پیروی کرنی چاہیے اور سیاسی لوگوں کے لیے میں کسی بھی طور اس طرزِگفتار کو مناسب نہیں سمجھتا۔‘ دراصل انگریزوں نے جب پنجاب پر قبضہ کیا تو انہوں نے مختلف طریقوں سے ہماری زبان کو Snub کیا۔ یہاں جو یوپی وغیرہ کی اشرافیہ آئی، ان کے ذریعے اردو مشاعرے کروائے گئے جن کے موضوعات بھی مقامی نہیں تھے، اس وقت یہاں پروپیگنڈا کیا گیا کہ پنجابی گنواروں کی زبان ہے اور محدود وقت کے لیے اردو سٹیٹس سمبل بن گیا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا۔

Back to top button