عمران خان اور نواز شریف کے سیاسی عروج و زوال کی کہانی
پاکستان کی تاریخ سیاسی رہنماؤں کے عروج و زوال سے بھری پڑی ہے لیکن یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ملک میں کسی ایک سیاست دان کا عروج اس کے مخالف کے زوال کا باعث بنتا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ماضی قریب کے دو سیاسی حریف نواز شریف اور عمران خان ہیں۔ دونوں کے درمیان سیاسی مخاصمت کا آغاز 2008 کے بعد شروع ہوا اور 2011 کے اواخر میں عروج پر پہنچا جس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔
نواز شریف جنھیں قسمت کا دھنی کہا جاتا ہے، جلاوطنی اور نااہلی ختم ہونے کے بعد 2013 میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو عمران خان نے ان کی حکومت گرانے کے لیے پہلے دن سے ہی زور لگانا شروع کر دیا۔2014 میں 126 دن کا طویل دھرنا دیا جس کے بارے میں نواز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بطور تیسری قوت ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔
پانامہ لیکس سامنے آئیں تو نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے عمران خان کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ گیا۔ عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اقتدار سے بے دخل کیا تو عمران خان اور ان کی جماعت نے یوم تشکر منایا اور مٹھائیاں بانٹیں۔
نواز شرہف کی اقتدار سے بے دخلی سے عمران خان کی حکومتی ایوانوں میں انٹری کا راستہ ہموار ہوا اور وہ 2018 میں وزیراعظم بن گئے۔
لیکن اس سے قبل ہی نواز شریف نہ صرف سزا یافتہ ہوکر اپنی بیٹی کے ساتھ جیل پہنچ چکے تھے بلکہ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ہی انھیں اپنی جماعت جس کا نام نواز شریف کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس کی سربراہی سے محروم کر دیا گیا۔یوں نواز شریف اقتدار سے نکل کر چند ہی مہینوں میں جیل میں قید تھے اور عمران خان مسند اقتدار پر براجمان ہو چکے تھے۔
عمران خان کے دور اقتدار میں نواز شریف کی جماعت تمام اہم رہنماؤں بشمول ان کے بھائی شہباز شریف، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور سیاسی ساتھیوں خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناءاللہ، سعد رفیق، حنیف عباسی، جاوید لطیف سمیت متعدد رہنماؤں کو مختلف مقدمات میں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔صرف یہی نہیں بلکہ 2013 میں ن لیگ میں شامل ہونے والے کئی الیکٹ ایبلز 2018 کے انتخابات سے قبل ہی اڑان بھر کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے تھے۔
نواز شریف اگرچہ بعد ازاں بیماری کے علاج کے لیے جیل سے نکال کر لندن پہنچا دئیے گئے لیکن ان کی واپسی سے پہلے ہی عمران خان کے ستارے بھی گردش میں آ چکے تھے اور ان کے ساتھ بھی کم وبیش وہی کچھ ہوا جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا فرق صرف یہ تھا کہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے بظاہر آئینی راستہ اختیار کیا گیا تھا۔
پنجاب حکومت کا ہتک عزت قانون لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا
عمران خان اقتدار سے نکلے تو نواز شریف کے برعکس انھیں بڑی عوامی حمایت ملی اور ضمنی انتخابات میں پے درپے کامیابیاں حاصل کیں لیکن 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے لگا۔پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں جن میں عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی بھی شامل تھے انھوں نے پریس کانفرنس کرکے عمران خان اور تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد بالکل نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی پہلے ایک مقدمے میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔ پھر دوسرے اور پھر تیسرے مقدمے میں سزا سنا دی گئی جبکہ ملک بھر میں ان کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے۔شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی، علی محمد خان، شہریارآفریدی سمیت ان کے متعدد ساتھیوں کو بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی جبکہ 9 مئی کے واقعات کے الزام میں درجنوں رہنما اور کارکنان الگ سے گرفتار اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
نواز شریف کی جماعت سے صرف سینیٹ انتخابات میں پارٹی کا نشان واپس لیا گیا تھا لیکن عمران خان کو پارٹی سربراہی سے الگ کرتے ہوئے ان کی جماعت سے عام انتخابات میں بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔اس کے باوجود عمران خان کی جماعت خیبرپختوانخوا میں حکومت بنانے اور قومی اسمبلی اور پنجاب میں بری تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
جس وقت عمران خان کو مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی جا رہی تھیں انھی دنوں میں جن عدالتوں نے نواز شریف کو سزائیں سنائی تھیں وہ ان سے یکے بعد دیگر بری ہو رہے تھے اور انتخابات سے چند دن قبل ان کی تاحیات نااہلی سے متعلق قانون سازی اور بعد ازاں عدالتی فیصلے سے ان کے انتخابات لڑنے کی راہ بھی ہموار کر دی گئی۔نواز شریف اگرچہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے باوجود وزیراعظم نہیں بنے لیکن ان کے بھائی وزیراعظم اور بیٹی جو ان کے ساتھ قید کاٹتی رہیں وہ وزیراعلیٰ پنجاب بن چکی ہیں اور عمران خان اپنی اہلیہ کے ساتھ جیل میں موجود ہیں۔اقتدار سے بے دخلی سے شروع ہونے والے تمام اقدامات 28 مئی کو نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے پر واپس ہو چکے ہیں اور اب وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں اور موجودہ وزیراعظم یعنی شہباز شریف کو اسمبلیاں توڑنے کا بھی کہہ سکتے ہیں۔
سیاسی عروج و زوال کی اس کہانی میں پہلے نواز شریف اور ان کی جماعت نے جو کچھ بھگتا اب دو سال سے عمران خان اور ان کی جماعت بھگت رہے ہیں۔
تھوڑا سا ماضی میں جھانکیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی ایک دوسرے کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بناتی تھیں۔ تاہم 2008 کے میثاق جمہوریت کے تحت ان دونوں نے ایک دوسرے سے سیاسی انتقام لینے کا سلسلہ روکا تو عمران خان کی انٹری ہوگئی اور یوں یہ سلسلہ پھر سے چل پڑا اور جاری و ساری ہے۔