کیا اپ سیٹ الیکشن رزلٹ کے بعد مودی دوبارہ وزیراعظم بن پائیں گے؟
بھارتی عام انتخابات میں اپ سیٹ نتائج سامنے آنے کے باوجود نریندر مودی کی زیر قیادت حکومتی اتحاد نے سادہ اکثریت تو حاصل کر لی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مودی تیسری بار وزیراعظم بن پاتے ہیں یا نہیں؟
بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے مطابق 2024 کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی 240 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے رہی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس 99 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ سماج وادی پارٹی 37 نشستوں کے ساتھ تیسری نمبر پر رہی۔ آل انڈیا ترینامول کانگریس کزاغم 29 اور تیلگو دیسام 16 اور جنتا دل نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ شیو سینا نے 9 نشستیں اپنے نام کیں۔
وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکمران جماعت بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لیے درکار 272 نشستیں اکیلے حاصل کرنے میں ناکام رہی، تاہم اتحادی جماعتوں سے مل کر بی جے پی کو 295 نشستوں کیساتھ سادہ اکثریت مل گئی یے اور اسی بنیاد پر بی جے پی کا سیاسی اتحد اگلی حکومت بنالے گا، دوسری جانب کانگریس کی زیر قیادت اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے 231 نشستیں حاصل کی ہیں اور یوں اگلی بی جے پی حکومت کو پارلیمنٹ میں ایک بڑی اپوزیشن کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ صورتحال 2019 کے انتخابی نتائج سے بالکل مختلف ہے جب بی جے پی کی قیادت میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے 353 نشستیں حاصل کی تھیں جن میں سے 303 اکیلے بی جے پی نے حاصل کی تھیں۔ الیکشن نتائج کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی، جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار پارلیمانی انتخابات جیتنے والے پہلے سیاسی رہنما تو بن گئے ہیں تاہم بی جے پی وہ بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جسکا دعویٰ انتخابات سے قبل کئی بار کیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بھی بن پائیں گے یا نہیں۔
مالی سال 25-2024 کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے غیر متوقع نتائج کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب رہیں گی لیکن انھیں ہمیشہ یہ خطرہ رہے گا کہ حزب اختلاف حکمراں اتحاد سے ناراض جماعتوں کو اپنی جانب راغب کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے لیے کمزور مینڈیٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ پچھلی حکومت کے برعکس پارٹی کو ممکنہ طور پر اپنے نامکمل ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔ آنے والے دنوں میں جو علاقائی پارٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ان میں کانگریس کی حلیف سماج وادی پارٹی ہے، جو اتر پردیش کی 80 نشستوں میں سے 37 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ ٹی ایم سی جو کہ بنگال میں برسر اقتدار ہے نے 20 نشستیں حاصل کی ہیں اور گذشتہ انتخابات کے مطابق میں ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب مودی کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ نے بہار میں 12 اور ٹی ڈی پی نے آندھرا پردیش میں 16 نشستیں حاصل کی ہیں۔ بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر میں دفعہ 370 کو ہٹانے اور تین طلاق روکنے کا قانون متعارف کرانے جیسے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔ لیکن نئی حکومت کے لیے نامکمل وعدے جیسا کہ ’ون نیشن ون الیکشن‘ اور یکساں سول کوڈ، جس کے تحت اقلیتوں کے شادی اور وراثت کے قوانین کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا، انہیں پورا کرنا مشکل ہو گا۔
بھارتی انتخابی اعداد و شمار کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت ایک مرکزی جماعت کی بجائے اتحادی جماعتوں پر مبنی سیاست کی آئینہ دار ہو گی جو انڈیا میں سنہ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں عام تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مخلوط حکومتیں مسابقتی مفادات کی کھینچا تانی کی وجہ سے عوام کے حقوق کے لیے بہتر ہوتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے لہ مستقبل کی حکومت کے لیے روزگار اور مہنگائی ایک سنگین مسئلہ رہے گا کیونکہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ نوجوانوں نے فیصلہ کن طور پر ان مسائل پر ووٹ ڈالے ہیں۔