جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو زہر بھرا کالا بھونڈ کیوں قرار دیا؟

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی گئی غیر منصفانہ سزائے موت کی توثیق سے انکار کرنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس صفدر علی شاہ کے داماد جسٹس اطہر من اللہ نہ جانے کیوں اپنے عظیم سسر کی درخشندہ روایات سے روگردانی کرتے ہوئے خود کو زہر بھرا کالا بھونڈ قرار دینے پر مصر ہیں۔ یہ سوال معروف یو ٹیوبر اور تجزیہ کار بلال غوری نے روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں اٹھایا یے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیے جانے والے نیب قانون میں ترمیمی بل کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رُکنی بنچ ان نظر ثانی درخواستوں کو سن رہا ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان بھی اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہورہے ہیں۔ دوران سماعت پہلے جسٹس جمال مندوخیل نے لب کشائی کی اور کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وضاحت کی کہ وزیراعظم نے کالی بھیڑوں کی اصطلاح ریٹائرڈ جج صاحبان کیلئے استعمال کی ہے ۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ گویا ہوئے کہ اٹارنی جنرل صاحب! وزیراعظم کو بتا دیں کہ عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں، ہ۔ ججز کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں، اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں کالی بھیڑیں موجود ہیں تو انکے خلاف ریفرنس فائل کریں۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ دراصل چند روز قبل مسلم لیگ (ن)کی جنرل ورکرز کونسل کا اجلاس ہوا جس میں نوازشریف صدر منتخب ہو گے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہبازشریف نے کہا کہ ججز کی اکثریت ملکی خوشحالی پر متفق ہے لیکن عدلیہ میں موجود چند کالی بھیڑیں عمران خان کو ریلیف دینے پر تُلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ جج صاحبان نے اس بیان کے تناظر میں ردعمل دیا اور اطہر من اللہ نے تو خود کو کالی بھِڑ قرار دیدیا۔ بلال لکھتے ہیں کہ جب میں نے اپنا تجسس دور کرنے کے لیے چیک کیا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی میں بھڑوں کے لیے کونسا لفظ استعمال کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے انگریزی میں کہا تھا کہ جج کالی بھیڑیں نہیں بلکہ Black Bummble Bee (بلیک بمبل بی) ہیں۔اگرچہ شہد کی بڑی مکھیوں کو بھی ان میں شمار کیا جاسکتا ہے مگر اس سے مراد ایسے حشرات ہیں جنہیں بہت خوفناک خیال کیا جاتا ہے۔ اردو میں انہیں ’’بھِڑ‘‘ یا "بھونڈ” بھی کہا جاتا ہے۔

عمران خان سے انتقام لینے کا کبھی سوچا تک نہیں، نواز شریف

 

بلال غوری کہتے ہیں کہ بھونڈ تو پاکستان میں بہت مشہور اصطلاح ہے۔ جو من چلے نوجوان لڑکیوں کے کالج یا یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہوکر آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں انہیں بھی ’’بھونڈ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس مشغلے کو ’’بھونڈی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ معزز جج صاحب نے خود کو بھِڑ یا شہد کی مکھی سے تشبیہہ یہ سوچ کر دی کہ کوئی انہیں تر نوالہ نہ سمجھے بلکہ خوفناک بھنڈ سمجھے جو کہ زہریلہ ڈنگ بھی مارتی ہے۔ میری دانست میں یہ ایک طرح کا انتباہ ہے۔ وزیراعظم سمیت انتظامیہ اور مقننہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ آپ جلسوں میں حال ِدل بیان کرسکتے ہیں ،زیادہ سے زیادہ کوئی بیان داغ سکتے ہیں، پارلیمنٹ میں اپنی بھڑاس نکال سکتے ہیں مگر عدلیہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

بلال غوری کے مطابق ہم تو آج تک یہی سمجھتے رہے کہ جج صاحبان ایسی شفیق ہستیاں ہیں جو سائل کو انصاف مہیا کرتی ہیں، ڈنگ مارنے والوںکا ڈنگ نکالنے کا کام کرتی ہیں ،زخموں پر مرہم رکھتی ہیں، دل جوئی و دل گیری کے جذبات سے معمور ہوتی ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ بعض منصف خود کو خوفناک بِھڑ خیال کرتے ہیں۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوتی تو یقیناً کان نہ دھرتے مگر بھری عدالت میں ایک جج صاحب نے بذات خود یہ بات کہی ہے تو کسی شک و شبہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں جج صاحب کو ایک واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ایک طرم خان قسم کے جج صاحب ہوا کرتے تھے جسٹس مولوی مشتاق ۔جنرل ضیاالحق کے دور میں انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر وہ منصف کے بجائے بھڑ بن گئے اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈستے رہے ۔ ایک ایسے مقدمے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنادی جس کی کوئی عدالتی نظیر نہیں ملتی۔صرف یہی نہیں بلکہ جب اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو موصوف وہاں بھی سماعت کرنے والے جج صاحبان سے رابطہ کرکے اس مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے۔آخر کار یہ اپیل مسترد ہوگئی ، انکی نظر ثانی اپیل بھی خارج کردی گئی اور بھٹو کو پھانسی دیدی گئی ۔مگر اس عدالتی طرم خان کیساتھ کیا ہوا؟تاریخ بتاتی ہے کہ بوقت مرگ جب نماز جنازہ ہورہا تھا تو شہد کی مکھیوں نے مولوی مشتاق کے جسد خاکی پر حملہ کردیا ۔شاید شہد کی مکھیوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک انسان جس کا کام انصاف کرنا تھا اس نے خوفناک حشرات کی طرح ڈنگ مارنے کی روش کیوں اپنائی۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ ویسے جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس صفدر علی شاہ کے داماد ہیں ۔جسٹس صفدر علی شاہ وہ بہادر جج ہیں جنہوں نے ’’بھِڑ ‘‘بننے سے انکار کردیا۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزائے موت کی توثیق نہیں کی اور اکثریتی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا جس کی پاداش میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کے عتاب کا نشانہ بھی بنے۔ہم تو جسٹس اطہر من اللہ کو انہی درخشندہ روایات کا امین خیال کرتے ہیں۔مگر نجانے کیوں وہ خود کو زہر بھری کالی بھڑ قرار دینے پر مصر ہیں۔

Back to top button