عمران خان اور مرتضی بھٹو جیسے دہشت گرد شہزادے کس نے پیدا کیے؟
سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا یے کہ پاکستانی تاریخ کے مختلف ادوار میں ریاستی اداروں نے اپنی غلط پالیسیوں سے خود مرتضی بھٹو اور عمران خان جیسے دہشت گرد شہزادے پیدا کئے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انہی اداروں نے ان شہزادوں کی سرکوبی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا۔ یہ ادارے میر مرتضیٰ سے لیکر عمران تک اپنے تخلیق کردہ دہشت گرد شہزادوں کا احتساب تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی خود احتسابی کی طرف نہیں آتے۔ جب تک پاکستان کا آئین و قانون سب کیلئے برابر نظر نہیں آئے گا دہشت گرد شہزادے پیدا ہوتے رہیں گے۔
حامد میر اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے مرتضی بھٹو نے ہمیشہ شہزادوں جیسی زندگی گزاری۔ اس نے پاکستان کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پہنچا تو کلاس فیلوز نے اسے پرنس کہنا شروع کر دیا۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی حالات بدل گئے تو یہ شہزادہ ایک دن مزاحمت کار بن جائے گا اور ریاست اسے دہشت گرد قرار دیدے گی۔ اس شہزادے پر بغاوت، قتل اور دہشت گردی کے کئی مقدمے قائم ہوئے لیکن ریاست کسی بھی مقدمے میں اس شہزادے کو سزا نہ د لوا سکی اور پھر ایک دن یہ شہزادہ الیکشن لڑ کر سندھ اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا۔ تاہم کچھ ہی عرصے کے بعد اس شہزادے کو کراچی میں ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ اس قتل کے فوراً بعد ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘۔ یہ کتاب میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں تھی اور لکھنے والے کا نام ہے۔ راجہ انور کابل میں دہشت گرد شہزادے کے ساتھ مل کر کافی عرصہ تک پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ کتاب ایک ایسے شہزادے کی کہانی ہے جس کا نام تو بدلتا رہتا ہے لیکن اس کا کردار نہیں بدلتا۔ ہر دور میں ریاست کی پالیسیوں کے ردعمل میں ایسا کوئی نہ کوئی کردار ضرور سامنے آتا ہے اور پھر ریاست اسے دہشت گرد قرار دیکر مبینہ غیر ملکی سازشوں پر ماتم شروع کر دیتی ہے لیکن ان پالیسیوں کا جائزہ نہیں لیتی جو دہشت گرد شہزادے پیدا کرتی ہیں۔ کتاب کا موضوع میر مرتضیٰ بھٹو ہیں۔ لیکن اس کتاب میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ راجہ انور کا ذاتی عناد بڑا واضح جھلکتا ہے کیونکہ مرتضیٰ نے انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کا ایجنٹ قرار دیکر افغانستان میں جیل بھجوا دیا تھا ۔یہ الزام ثابت نہ ہو سکا اور آخر کار راجہ انور رہا ہو کر جرمنی پہنچ گئے ۔۔
کپتان جیل میں گرمی سے پریشان، رہائی کےلیے منتیں اور ترلے
حامد میر بتاتے ہیں کہ ضیا جنتا کے ہاتھوں ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں بھٹو کی پھانسی کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو انتقام کی آگ بجھانے کابل پہنچ گئے۔ دوسری طرف راجہ انور ان کا ساتھ دینے کیلئے جرمنی سے کابل آئے۔سیاسی کارکن جذبات کی رو میں بہہ کر مسلح کارروائیاں شروع کر دیں تو ریاست کیلئے انہیں غدار اور دہشت گرد قرار دیکر ختم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ریاست خوف اور شک کا ہتھیار استعمال کر کے انہیں آپس میں لڑاتی بھی ہے۔ یہی راجہ انور کے ساتھ ہوا جو بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقاریر لکھتے لکھتے انقلاب کی تلاش میں کابل پہنچے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے شکوک وشبہات نے انہیں پل چرخی جیل پہنچا دیا۔ 1981ء میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھیوں نے پی آئی اے کا طیارہ اغواء کیا تو راجہ انور پل چرخی جیل میں تھے۔ اسی جیل میں انکی ملاقات ہائی جیکنگ کے مرکزی کردار سلام اللہ ٹیپو سے ہوئی۔ ٹیپو بھی مرتضیٰ کی مرضی سے جیل پہنچا تھا اس پر اپنے ایک ساتھی پرویز شنواری کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ سلام اللہ ٹیپو نے 1982 میں جنرل ضیاء الحق کو دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے قریب ایک فوٹو گرافر کے روپ میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مقصد کیلئے اسلحہ اور بم پرویز شنواری نے مہیا کرنا تھا شنواری یہ کام نہ کر سکا جس پر مبینہ طور پر ٹیپو نے کابل واپس آکر شنواری کو قتل کر دیا۔ شنواری کے قتل پر پورا شنواری قبیلہ بھڑک اٹھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نے ٹیپو کو گرفتار کیا اور کچھ عرصے بعد اسے سزائے موت دیدی۔راجہ انور کی کتاب میں جنرل ضیاء الحق پر سام میزائلوں سے حملے کا ذکر بھی ہے۔ یہ میزائل میر مرتضیٰ بھٹو کو یاسر عرفات نے مہیا کئے تھے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ راجہ انور کی کتاب بظاہر میر مرتضیٰ بھٹو کے خلاف ایک چارج شیٹ نظر آتی ہے لیکن کتاب کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ میر مرتضیٰ بھٹو نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن انہیں غلط راستے پر چلانے کا ذمہ دار ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا جس نے پاکستان کے آئین کے ساتھ دہشت گردی کی اور اس دہشت گردی نے ایک دہشت گرد شہزادہ پیدا کیا، جس نے سام میزائلوں کےساتھ جنرل ضیاء کا پیچھا کیا۔ پاکستانی ریاست کے اداروں میں بیٹھےمفاد پرست عناصر کی آئین شکنی کے نتیجے میں صرف جنرل ضیاء کے دور میں دہشت گرد شہزادہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ خود ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی تو اجمل خٹک سے لیکر اعظم ہوتی تک نیب کے سینکڑوں کارکنوں نے کابل میں بیٹھ کر وہی کیا جو بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو نے کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں میر مرتضیٰ بھٹو پر ہائی جیکنگ کا الزام لگا اور جنرل مشرف نے نواز شریف پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنا دیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں پر غداری اور دہشت گردی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ اسی قسم کے الزامات کے تحت آج تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے بہت سے ساتھیوں پر بھی مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج عمران خان پر بھی غداری اور دہشت گردی کے بہت سے مقدمات قائم ہیں۔ اگر عمران واقعی غدار ہیں تو پھر یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ 2018ء میں مبینہ دھاندلی کے ذریعہ انہیں اقتدار میں کون لایا تھا؟ ان کا بھی لازمی احتساب ہونا چاہیے جن کی یہ فخریہ پیشکش تھی۔