کیا نواز اورمودی کی دوستی انڈیا پاکستان تعلقات بہتر بنا پائے گی؟
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین پیغامات کے تبادلے سے ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی امید پیدا ہو گئی ہے اگرچہ پیغامات کے اس تبادلے کو بات چیت میں بحالی کے اعتبار سے ایک مثبت پیشرفت سمجھا جا رہا ہے تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ابھی بھی برف پگھلنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ کئی برسوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں مگر اب نریندر مودی کے تیسری بار انڈین وزیر اعظم منتخب ہونے پر پاکستانی قیادت کی جانب سے انھیں امن کا پیغام دے کر تعلقات میں ماضی کی طرح کی گرمجوشی پیدا کرنے کو کوشش کی گئی ہے۔10جون کے روز پہلے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مودی کو مبارکباد دی گئی جس کے بعد ان کے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’میں مودی جی کو مسلسل تیسری بار انڈیا کا وزیر اعظم بننے پر گرم جوشی سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘
2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نریندر مودی سے متعدد ملاقاتیں کرنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن میں مسلسل تیسری بار کامیابی انڈین عوام کے آپ پر اعتماد کا اظہار ہے۔‘’آئیں ہم اس خطے میں نفرت کو اُمید سے بدل کر یہاں بسنے والے دو ارب لوگوں کی ترقی اور فلاح کا سوچیں۔‘
انڈین وزیر اعظم نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’میں نیک تمناؤں پر آپ کا شُکر گُزار ہوں۔ انڈیا کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ ہماری ہمیشہ یہی ترجیح رہے گی کہ ہم اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو آگے بڑھائیں۔‘
خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔تاہم حالیہ عرصے کے دوران پاکستان کے ساتھ امن اور بات چیت سے متعلق سوالات پر انڈین قیادت کی جانب سے سرحد پار دہشتگردی اور سکیورٹی جیسے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف کے 2013 اور نریندر مودی کے 2014 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ خوشگوار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ نواز شریف نے نہ صرف نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی بلکہ اس ملاقات کے بعد مودی نے آئندہ 18 ماہ میں مزید پانچ ملاقاتوں کے ذریعے نواز شریف کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط بنایا تھا۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کے مطابق 2014 میں نواز شریف کی جانب سے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے لگتا تھا کہ تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے ’لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘’وہ ایک اچھا موقع تھا۔۔۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہتا تو آج صورتحال بہتر ہوتی۔‘2014 کی اس ملاقات کے بعد 25 دسمبر 2015 کو مودی نے لاہور کا دورہ کیا مگر کچھ روز بعد اگلے ہی سال انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پٹھان کوٹ حملے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا۔اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے 2016 میں تو مودی صاحب نے پاکستان سے رابطہ ہی ختم کر دیا۔ سنہ 2014 سے سنہ 2024 کے درمیان بڑا وقت گزر گیا ہے لیکن تعلقات میں بہتری نظر نہیں آ رہی۔‘
زرمبادلہ کے ذخائر میں 62لاکھ ڈالر کی کمی
تاہم اب ایک بار پھر مودی اور نواز شریف کا ایکس پر رابطہ ہوا ہے۔مودی اور نواز شریف کے درمیان ایکس پر اس مختصر گفتگو پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’نریندر مودی کو سوشل میڈیا پر مبارک باد دینا ایک رسمی پیغام تھا۔ سفارتی سطح پر ایسا کیا جاتا ہے۔‘’ہم نے کون سا اُنھیں محبت نامہ لکھ دیا، جب شہباز شریف وزیر اعظم بنے تھے تو انھوں نے ہمیں مبارکباد دی تھی تو اب ہم نے بھی سفارتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا ہی کیا۔‘
دوسری طرف خارجہ امور پر نظر رکھنے والے مبصرین نے نواز شریف کی جانب سے کی گئی ٹویٹ اور وزیرِ اعظم مودی کے اس پر فوری جواب کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان ’بیک چینل مذاکرات‘ اور بریک تھرو کا امکان بڑھ سکتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ’اب ایک بار پھر نواز شریف نے مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جن کے ساتھ ان کا اچھا ذاتی تعلق ہے اور شہباز شریف بھی انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے ماضی میں بات کر چکے ہیں۔‘ان کی رائے میں یہ بہتر ہوتا کہ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کو بھی بلایا جاتا، ’لیکن اب ٹویٹس کے ذریعے دونوں ممالک کے رہنماؤں میں بات چیت خوش آئند ہے۔‘
تاہم نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے لیگی رہنما پرویز رشید کے مطابق ’دنیا کے کسی بھی ملک کے دو افراد خواہ وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں یا کتنے ہی بااختیار کیوں نہ ہوں، وہ نہ تعلقات اچھے کر سکتے ہیں نہ ہی خراب کر سکتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’تجربے نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ جب تک دونوں طرف ایک وسیع حلقے کی یہ خواہش نہ ہو کہ ہم نے تلخیاں، جنگیں اور دشمنی کی حد تک ایک دوسرے سے اختلاف کر کے کیا حاصل کیا، حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم نے دہائیوں کے اس اختلاف سے اپنے لوگوں کے ساتھ اچھا کیا اور کیا اب ہمیں مختلف راستہ اختیار کر لینا چاہیے۔‘