برطانیہ میں احتجاج کرنے والے یوتھیے بھی مایوس ہونے لگے

پاکستانی عوام کے بعد اب بیرون ملک مقیم یوتھیے بھی پی ٹی آئی کی انتشاری سیاست سے اکتا گئے۔ پی ٹی آئی کارکنان سمیت اکثریتی اوورسیز پاکستانیوں نے عمران خان کے ریاست مخالف بیانیہ سے بدظن ہو کر انھیں جھنڈی دکھانا شروع کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی کسی بھی کال پر برطانیہ میں پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ چھبیس ہزار ممبرز اور امریکہ میں رجسٹرڈ سولہ ہزار کے قریب ارکان میں سے صرف چند سو احتجاج کے لئے نکلتے ہیں۔ ان میں بھی بڑی تعداد دیہاڑی داروں کی ہوتی ہے۔ مبصرین کے مطابق یورپی ممالک میں موجود چند بے لگام۔یوتھیے ہر جگہ احتجاج کیلئے پہنچ جاتے ہیں اور اپنی غیر اخلاقی حرکات سے جہاں ملک کیلئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں وہیں پارٹی رہنماؤں کیلئے بھی پریشانیاں پیدا کرتے ہیں اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں موجود گالم گلوچ بریگیڈ سے پی ٹی آئی کے مقامی عہدیدار بھی بہت بیزار ہیں اوروہ خود بھی ان سے بچتے پھرتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت ترسیلات زر میں کمی کرنے سے متعلق عمران خان کے بیانیے کو ملک دشمنی تصور کرتی ہے۔ اسی لئے اوورسیز پاکستانیوں نے پہلے بھی عمران خان کی اس نوعیت کی کالوں کو گھاس نہیں ڈالی تھی۔ اب بھی نہیں ڈالیں گے۔ تاہم دیکھا جائے تو عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے اوورسیز پاکستانی پہلے سے زیادہ پیسے پاکستان بھیج رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ظاہر ہے کہ جب ریٹرن اچھا ہوگا اور اکانومی بہتر ہوگی تو ترسیلات زر میں اضافہ ہی ہوگا۔ عمران خان چاہے بھی تو بیرون ملک مقیم پاکستانی، اپنے وطن کے ساتھ تعلق توڑ نہیں سکتے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عمران خان کی حکومت ہو تو اوورسیز پاکستانیز پیسے بھیجیں۔ حکومت نہ ہو تو پیسے بھیجنا بند کردیں۔ عمران خان وزیراعظم ہو تو وہ پاکستان آئیں اور وہ وزیراعظم نہ ہو تو وہ اپنا ملک چھوڑ جائیں یا آنے سے انکار کردیں۔ تارکین وطن پاکستان سے لازوال محبت کرتے ہیں۔ اس لئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کسی کال پر اوورسیز پاکستانیوں کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ مشکل وقت میں اوورسیز پاکستانیوں کا اپنے وطن کے ساتھ رشتہ مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ ان کے لئے کوئی شخصیت یا لیڈر ملک پر ترجیح نہیں رکھتا۔ ورنہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ترسیلات زر میں پچاس فیصد کمی ہوچکی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ بھیجی جانے والی رقوم میں اضافہ ہوا۔ بیرون ممالک میں عمران خان کے ریاست مخالف بیانیہ کو محض مٹھی بھر لوگ ہی سپورٹ کرتے ہیں، جو کلٹ فالوورز کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ باقی اکثریت کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے کیا کال دی ہے‘‘۔

تجزیہ۔کاروں کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک سے آتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت روزگار کے سلسلے میں مقیم ہے اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں۔ لہٰذا انہیں تو ہر صورت پاکستان پیسہ بھیجنا ہے۔ وہ عمران خان کی خاطر اپنی فیملیوں کے ماہانہ اخراجات کو بند نہیں کرسکتے۔ فٹیف کی کڑی نگرانی کے بعد اب ہنڈی کے ذریعے پیسہ بھیجنا ویسے بھی پُرخطر ہوچکا ہے ایسے میں اوورسیز پاکستانی ایک بندے کی خواہش کی خاطر رسک کیوں لیں گے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ایسے لوگ جو عمران خان کے کلٹ فالوورز ہیں اور ان میں سے اکثر کے اہل خانہ پاکستان میں نہیں، سب وہیں مقیم ہیں۔

اگر یہ مٹھی بھر عناصر ملک دشمنی کرتے ہوئے پیسے پاکستان نہیں بھی بھیجتے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ تاہم بیرون ممالک مقیم پاکستانی کمیونٹیز کی اکثریت عمران خان کو سیریس نہیں لیتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے سیاست میں گالم گلوچ اور انتشار کو پروان چڑھایا۔ عمران خان کی منافرت اور تقسیم کی سیاست نے ایک معاشرتی بحران پیدا کردیا ہے۔ لہٰذا اب نوجوانوں کی اکثریت اس رویہ سے متنفر ہورہی ہے۔

مبصرین کے مطابق برطانیہ اور امریکہ میں پاکستان مخالف احتجاج کرنے والوں میں تنخواہ دار مظاہرین کی اکثریت ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور دیگر ممالک میں تنخواہ دار سوشل میڈیا ٹیم، پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ ان کی تعداد چند فیصد ہے۔ اس میں بھی اب کمی آرہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے اوورسیز سپورٹرز کو سمجھ آرہی ہے کہ عمران خان سیاست نہیں نفرت پھیلارہے ہیں، جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو خاص کر امریکہ اور برطانیہ میں پی ٹی آئی کی بہت زیادہ سپورٹ تھی۔ اب اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔

خاص کر پی ٹی آئی سے وابستہ سنجیدہ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک تعداد گالم گلوچ اور پاکستان مخالف سرگرمیوں سے خود کو الگ رکھتی ہے۔ مثلاً امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً سولہ لاکھ ہے۔ ان میں سے کتنے مظاہروں میں نظر آتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو ہوں گے یا مختلف شہروں میں سب کو ملا کر تین چار سو ہوجاتے ہوں گے۔ سولہ لاکھ میں سے اگر چند سو، پاکستان مخالف مظاہروں میں شریک ہورہے ہیں تو یہ تعداد کتنے فیصد بنتی ہے؟ اسی طرح برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد تقریباً چھیس ہزار ہے۔ ان میں سے مظاہروں میں چند سو دکھائی دیتے ہیں۔یعنی رجسٹرڈ ارکان کی اکثریت بھی اس گالم گلوچ اور ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

فیض حمید نے پی ٹی آئی کو بطور ہتھیار کس کس کیخلاف استعمال کیا؟

مبصرین کے مطابق’برطانیہ میں پی ٹی آئی پچھلے چند برسوں سے کمزور ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دو برس سے پی ٹی آئی نے اپنے تنظیمی الیکشن نہیں کرائے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر بہت خلفشار ہے اور اکثریت سمجھتی ہے کہ پارٹی سپورٹرز کو غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

Back to top button