PTI کو اب الیکشن میں لیول پلئینگ فیلڈ ملنا ناممکن ہے؟
سینئر صحافی اور کالم نگار انصار عباسی نے کہا ہے کہ آٹھ فروری کے الیکشن کے معرکے میں لیول پلئینگ حاصل کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو اپنے سوشل میڈیا اور ملک سے باہر بیٹھے ہمدردوں اور دوستوں کو فوج مخالف گھٹیا پروپیگنڈا سے روکنا پڑے گا جس کیلئے اب شاید وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اگر عمران خان اپنی ذات اور پی ٹی آئی کے فوج مخالف بیانیے کو بدلنے پر تیار نہیں تو انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ اور شفاف انتخابات نہیں مل سکتے. اپنے ایک کالم میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی سب بات کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر لیول پلئینگ فیلڈ کا واقعی کسی سیاسی جماعت کو مسئلہ ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو لوگ 9مئی کے جرم میں شامل تھے اُنہیں تو ضرور سزا دیں اور الیکشن میں بھی حصہ نہ لینے دیں لیکن بحیثیت سیاسی جماعت تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے اُسی طرح کھلا میدان دیا جائے جیسے دوسری سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے۔
یہ سب اصولی باتیں ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اُن زمینی حقائق بھی دیکھنا اور اُن پر بحث کرنی چاہیے جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ جو حالات نظر آ رہے ہیں اُن کے مطابق اس وقت تک تحریک انصاف ہی پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے اور اگر لیول پلیئنگ فیلڈ تحریک انصاف کو ملتی ہے تو ممکنہ طور پر پی ٹی آئی ہی الیکشن جیتے گی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد فوج سے براہ راست لڑائی مول لی۔ انصار عباسی کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے فوج مخالف بیانیے کی وجہ سے تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی فوج مخالف بیانیے پر ہی چل رہے ہیں۔ فوج کے خلاف تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے درجنوں مہمات چلائیں اور فوج کے خلاف نفرت کو اُبھارا۔ فوج پر 9 مئی کے حملے کسی سازش کا نتیجہ تھے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوجی علاقوں میں احتجاج کا فیصلہ پارٹی قیادت کا تھا. فوج پر جوحملے کیے گئے وہ اُس نفرت کا نتیجہ تھے جس کا بیج عمران خان ، اُن کی جماعت اور سوشل میڈیا نے فوج کے خلاف بویا۔ 9؍مئی کے سانحہ کے باوجود فوج مخالف بیانیہ کو ختم کرنے اور اس سے فاصلہ اختیار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش تحریک انصاف کی قیادت نے نہیں کی بلکہ 9؍مئی کو الٹا اپنے خلاف ہی سازش گردانا۔ آج بھی پاکستان سے باہر بیٹھے ہوے تحریک انصاف کے لوگ اور عمران خان کے دوست فوج اور موجودہ آرمی چیف کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈا میں مصروف ہیں جس کی تحریک انصاف کی قیادت نہ کوئی مذمت کرتی ہے نہ ہی کسی کو ایسا کرنے سے منع ہی کر رہی ہے۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی گلوکار، عمران خان کے دوست اور تحریک انصاف کے اہم رکن سلیمان احمد کے ٹویٹر اکاونٹ کو ہی دیکھ لیں کہ وہ فوج اور فوجی قیادت کے خلاف کیسے زہر اگل رہے ہیں۔ گویا جس نکتہ پر بحث ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس فوج مخالف نفرت کے ساتھ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن جیت کر اقتدار میں آتی ہے تو اُس کے نتائج پاکستان کیلئے کیسے ہوں گے؟ ایسے حالات میں کیا اس ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکتا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا . انصار عباسی بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے انتخابات جیت کر اقتدار سنبھالتے ہی فوج کے ساتھ ایک ایسے ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہو جائے گی جس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ اب اگر لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جاتی ہے تو اُس صورتحال اور نتائج کے تدارک کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں کا ہی ہو سکتا ہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے جو فوج مخالف نفرت اپنے ووٹروں اور حامیوں میں پیدا کی اُسے ختم کرنے کیلئے کوئی مہم چلانا پڑے گی، اپنے سوشل میڈیا اور ملک سے باہر بیٹھے ہمدردوں اور دوستوں کو ایسے فوج مخالف گھٹیا پروپیگنڈا سے روکنا پڑے گا جس کیلئے اب شاید وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لیکن اصل سوال اب بھی یہ ہے کہ کیا عمران خان خود کو اور فوج اور فوجی قیادت کے مخالف بیانیہ کو بدلنے پر تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا شفاف انتخابات اور لیول پلیئنگ فیلڈ اُن کی جماعت کو مل سکتے ہیں؟ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔