افغان حکومت مولانا فضل الرحمن کی ثالثی پر کیوں مجبور ہوئی؟

افغان طالبان کے لیے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت کرنے کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے اسی لئے پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی اور ٹرانزٹ ٹریڈ پر مختلف قسم کی رکاوٹیں نافذ کی گئی ہیں۔ افغان طالبان اس وقت پاکستان میں اپنے خلاف پالیسی میں نرمی کے لیے مولانا فضل الرحمان سے رابطے میں ہیں. افغان حکومت پاکستان کا دباؤ محسوس کر رہی ہے اور اب مولانا فضل الرحمان کے ذریعے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے سہولیات اور نرمی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نیوز ویب سائیٹ وی نیوز کی ایک تحریر کے مطابق افغان طالبان کو مولانا فضل الرحمان کی کابل آمد کا انتظارہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے ’مولانا فضل الرحمان صاحب کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ افغانستان آئیں۔ مملکت پاکستان اور پاکستانی عوام کے حوالے سے افغان عوام اور امارت اسلامیہ کے عزائم سے آگاہی حاصل کریں اور پھر جاکر پاکستانی عوام کو بتائیں کہ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ خدانخواستہ پاکستان میں بدامنی ہو۔ پاکستان سے ہمارے تعلقات خراب ہوں یا پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے۔ اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان صاحب بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں‘۔تارکین وطن کے عالمی دن کے موقع پر افغان وزیر اعظم ملا حسن اخوند اور مہاجرین کے وزیر خلیل الرحمان حقانی نے بیانات جاری کیے ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں 7 لاکھ لوگوں کو زبردستی واپس بھجوایا گیا ہے۔ ان کے ساتھ نازیبا سلوک ہوا ہے ، افغان مہاجرین کے مسئلے کا سیاسی استعمال بند کیا جائے۔ ایک تازہ پیشرفت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے افغان طالبان کو یو این میں مستقل نمائندے کی سیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستانی آرمی چیف کی یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے 2 دن پہلے ملاقات ہوئی ہے ۔ اس ملاقات کے بعد یہ فیصلہ آنا معنی خیز ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی عالمی فورم پر حمایت بند کر رکھی ہے، پہلے پاکستان افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی شدت سے حمایت کرتا آ رہا تھا۔ ٹی ٹی پی کے پاکستان میں جاری مسلسل حملوں کے بعد پاکستان نے افغان حکومت کی عالمی فورم کو حمایت فراہم کرنے کی اپنی پالیسی ترک کردی ہے۔ افغان طالبان نے یو این کمیٹی کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ اس وقت جنرل عاصم منیر امریکا میں ہیں، امریکا پاکستان سے افغان مہاجرین کو نکالنے کے حوالے سے نرمی کا کہہ رہا ہے۔ افغان طالبان کی داعش، خراسان کے خلاف کارروائیوں کی امریکی بہت تعریف بھی کر رہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے ظاہر ہے وہ پاکستان جتنا فکر مند نہیں ہیں بلکہ افغان طالبان کے موقف کے زیادہ قریب ہیں کہ اگر ان کے خلاف افغان طالبان نے کارروائی کی تو یہ داعش سے جا ملیں گے۔ مولانا فضل الرحمن مولانا ایک ایسی سیاسی صورتحال کا شکار ہیں جس میں وہ کسی سے گلہ بھی نہیں کر سکتے۔ سیکیورٹی تھریٹ کا بھی انہی کی پارٹی کو سامنا ہے۔ خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ پشتونخواہ میپ اور جے یو آئی بلوچستان میں اتحاد کریں گی۔ خود مولانا فضل الرحمن بھی شاید بلوچستان سے الیکشن لڑیں۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی، پی پی پی، آفتاب شیر پاؤ، پرویز خٹک اور مسلم لیگ ن سب ہی کو جے یو آئی سے اتحاد کی ضرورت ہے۔ جس سے بھی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ ہوئی اس کو اپنے حصے سے کچھ دینا ہی پڑے گا۔ سیاسی اور انتخابی حوالے سے مولانا کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی تھریٹ اس کے علاوہ ہیں، جے یو آئی نسبتاً ایک چھوٹی سیاسی جماعت ہے جس کی پاکستان میں محدود سی پارلیمانی نمائندگی ہوتی ہے۔ اپنے سائز سے بڑا رول ادا کرتے ہوئے مولانا ایک سفارتی ٹربل شوٹنگ کا سینٹر پوائنٹ بن گئے ہیں۔ یہ موقع انہیں تب ملا ہے جب افغان مہاجرین کے مسئلے پرعمران خان ریاستی پالیسی کے مخالف پوزیشن لے چکا ہے۔ فضل الرحمن ایک سمجھدار سیاستدان ہیں اس موقع پر ان کی سیاسی منطق درمیانی راستہ ایسا نکالنے کی کوشش کرے گی کہ وہ ایک وقت سیز فائر کروانے پر افغان طالبان کو آمادہ کریں۔