عمران کی فائنل احتجاجی کال کے خلاف PTI والوں کے استعفے شروع
فائنل احتجاج کی کال دینے کے بعد تحریک انصاف میں بغاوت پھوٹ پڑی جہاں ایک طرف پشاور سمیت مختلف اضلاع کے پارٹی ذمہ داران نے استعفے دینے شروع کر دئیے ہیں وہیں دوسری جانب شیر افضل مروت اور علی محمد خان سمیت پارٹی کے کئی مرکزی رہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے پارٹی معاملات سنبھالنے پر تحفظات کا کھل کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ پارٹی قیادت کی جانب سے 24 نومبر کو انتشار پھیلانے کیلئے حلقے سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اسلام آباد لانے پر زور دینے پر کئی پی ٹی آئی رہنما بیرون ملک دوروں یا عمرے کیلئے روانہ ہو گئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی پنجاب نے بشریٰ بی بی کی جانب سے دئیے گئے ٹارگٹس کے حوالے سے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں اور پارٹی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حالات میں پنجاب سے عوام کو لے کر اسلام آباد پہنچنا تو کجا نوجوانوں کو مرکزی شہراہوں تک لانا بھی ناممکن ہے کیونکہ پنجاب میں مریم نواز کی زیر قیادت نون لیگ کی حکومت قائم ہے اور لیگی قیادت کی جانب سے صوبے میں انتشار پھیلانے پر زیرو ٹالرینس پالیسی کا اعلان ہو چکا ہے ایسے میں احتجاج کے نام پر نوجوانوں کو سڑکوں پر لا کر ہم کوئی رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اس سے قبل احتجاج میں شریک یوتھیے تاحال جیلوں میں قید ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 24 نومبر کو پارٹی پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کی حتمی کال دے رکھی ہے، ذرائع کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کا پیغام پی ٹی آئی عہدیداروں تک پہنچاتے ہوئے ان کی رہائی کی جہدو جہد تیز کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ احتجاج میں بھرپور شمولیت نہ کرنے والے رہنماؤں کو پارٹی سے بے دخلی کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔
تاہم ذرائع کےمطابق پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا واٹس ایپ گروپ اس دن سے خاموش ہے جب سے بشریٰ بی بی نے 24 نومبر کو احتجاج میں ہر حلقے سے پارٹی ایم این اے کو 10 ہزار اور ہر ایم پی اے کو 5 ہزار افراد ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔
ایک پی ٹی آئی ایم پی اے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں احکامات دئیے گئے ہیں کہ پانچ ہزار بندے لے کرآئیں،گرفتار بھی نہیں ہونا، اپنے علاقے سے نکلتے وقت ویڈیوز بنائیں اور بشریٰ بی بی کی طرف سے بنائے گئے واٹس گروپ میں اپنے نام اور حلقے کے نام کے ساتھ ویڈیوز بھجیں۔’ہمیں سخت دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر ٹارگٹ پورا نہ کیا تو پارٹی سے نکال دیے جائیں گے، یہاں تک کہ اگر کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو پولیس گرفتار بھی کر لیتی ہے تب بھی بشریٰ بی بی کے حکم کے مطابق اس کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔‘
پی ٹی آئی ایم پی اے کا کہنا تھا کہ اس فائنل کال پر پنجاب کے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز پریشان ہیں کیونکہ وہ 5 ہزار بندے اسلام آباد لانے کا ٹارگٹ پورا نہیں کرسکتے، جس دن بشریٰ بی بی نے ٹارگٹ پورا کرنے کا کہا ہے اس دن سے پارٹی کے صوبائی پارلیمانی گروپ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔‘’رانا شہباز جو ہمارے چیف وہپ بھی ہیں وہ بھی گروپ میں پوچھ رہے ہیں کہ گروپ میں خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے، تو اس کے جواب میں پی ٹی آئی ایم پی اے صائمہ کنول نے لکھا کہ ٹارگٹ پورا کر رہے ہیں، اس لیے سب خاموش ہیں۔‘
کیا پی ٹی آئی پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا انقلاب لانے میں کامیاب ہو گی؟
پی ٹی آئی ایم پی اے نے مزیدبتایا کہ ابھی تک پارٹی کی جانب سے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسلام آباد کس جگہ پہنچنا ہے، کہاں رکنا ہے، یہ سب کچھ ابھی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ ’5 ہزار بندے لانے کا مطلب ہے کہ ہر ایم پی اے 2 سے 3 کروڑ روپے خرچ کرے۔‘ ایم پی اے کے مطابق پچھلے 2 سال سے پارٹی زیر عتاب ہے، بیشتر کے کاروبار تک تباہ ہو گئے ہیں، اب اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ خرچ کرسکیں، آئے دن احتجاج کی کال سے لوگ مایوس ہوتے جارہے ہیں۔’اس فائنل کال میں جینے اور مرنے کی باتیں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے لوگ ساتھ آنے کو بھی تیار نہیں ہیں، پارٹی کو اس پر سوچنا ہوگا اراکین کو دھمکیاں دینے کی بجائے ان سے مذکرات کریں تاکہ اسکا کوئی حل نکل سکے۔‘پی ٹی آئی ایم پی اے کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پنجاب کا کوئی ایم پی اے اور ایم این اے بشریٰ بی بی کے دیے ہوئے ٹارگٹ کو پورا نہیں کر سکے گا۔