کیا پرویز الٰہی کو خاموشی کی شرط پر رہائی ملی ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کی ضمانت پر رہائی کو پی ٹی آئی رہنما اور سیاسی مبصرین پارٹی کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو خاموش رہنے کی شرط پر ہی جیل سے رہائی ملی ہے۔ جس کے بعد چودھری پرویز الٰہی کا آئندہ کچھ عرصے تک کسی سیاسی عمل کا حصہ بننا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعلی پنجاب کے خاندانی ذرائع نے بھی اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ ابھی کچھ عرصہ آرام کریں گے اور کسی بھی سیاسی میٹنگز میں حصہ نہیں لیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی فی الحال میڈیا سے بات کرنے یا پریس کانفرنس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی فوری کوئی سیاسی مصروفیات شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

تاہم دوسری جانب بعض مبصرین کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی ایک زیرک سیاست دان ہیں جو عمران خان کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کو متحرک رکھ سکتے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی محاذ آرائی جس نہج پر ہے اس میں پرویز الہٰی بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔

خیال رہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کی رہائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بعض اپوزیشن جماعتوں نے ‘تحریک تحفظ آئین’ کے نام سے تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں نو مئی 2023 کے پرتشدد ہنگاموں کے بعد کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنے حصے کی قربانی دے چکے، اب کسی اور کی باری ہے: خالد مقبول صدیقی

تجزیہ نگار سلمان غنی کے مطابق پرویز الہٰی کی رہائی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی اب وکلا رہنماؤں کے بجائے سیاسی قیادت کرے گی۔ پرویز الہٰی کی رہائی کا وقت بہت اہم ہے۔اُن کے بقول اس وقت پی ٹی آئی کے اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ان کی مشکلات کی ایک بڑی وجہ قانونی کے ساتھ ساتھ سیاسی فیصلہ سازی بھی وکلا کے ہاتھوں میں ہونا ہے۔سلمان غنی کہتے ہیں کہ "پرویز الہٰی کی رہائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عدلیہ اور حکومتی اتحاد کے درمیان دُوریاں پائی جاتی ہیں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔” اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی رہنماؤں پر ماضی کی نسبت دباؤ میں کمی دکھائی دیتی ہے اور عدلیہ سے بھی مقدمات میں چھوٹ مل رہی ہے۔اُن کے بقول پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کا منظرِ عام پر آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت پر مشکلات کا دور کم ہو رہا ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مزاحمت کے راستے کو مفاہمت میں تبدیل کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خاصے قریب رہے ہیں۔سلمان غنی کے بقول پرویز الہٰی کی اصل طاقت یہی ہے کہ وہ فیصلہ ساز حلقوں سے اپنے تعلقات کو بحال کریں اور جماعت کے لیے سیاسی راستہ اور قید رہنماؤں کی رہائی یقینی بنائیں۔

دوسری جانب صحافی و تجزیہ کار سجاد میر کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پرویز الہٰی، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی مفاہمت کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین سے دُوریوں کی وجہ سے پرویز الہٰی اب اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہیں رہے۔سجاد میر کے بقول پرویز الہٰی تحریکِ انصاف کے صدر ضرور ہے مگر جماعت پر ان کی زیادہ گرفت نہیں ہے۔ کیوں کہ پرویز الہٰی کی سوچ پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست سے مطابقت نہیں رکھتی۔سجاد میر کے بقول ابھی یہ واضح نہیں کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتی ہے یا محاذ آرائی کیوں کہ پارٹی رہنما اس ضمن میں متضاد بیان دے رہے ہیں۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کے درمیان فاصلے کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ تاحال حزب اختلاف کے اتحاد کا باقاعدہ حصہ نہیں بنے ہیں۔اس پیشرفت بارے سلمان غنی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی دھارے میں اپنی اہمیت منوانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ذہین سیاست دان ہیں اور وہ ہر دور میں اپنی سیاسی اہمیت بنا لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی سیاسی و عوامی طاقت کی بنیاد پر حزبِ اختلاف کی سربراہی چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی سے ملنے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی مول لے لیں۔

Back to top button