پنجابی جھینگا، سندھی کوئلہ اور پختون ڈنڈا

تحریر : سہیل وڑائچ

بشکریہ: روزنامہ جنگ

تضادستان کی سیاست مرکز میں کم اور صوبوں میں زیادہ ہو رہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور کمزور ہے جب کہ صوبے امیر اور طاقتور ہیں، یہی وجہ ہے کہ وفاق اپنے سب سے باوقار ادارے پی آئی اے کو بیچنے پر مجبور ہے اور پنجاب و پختونخوا اسے خریدنے کےلیے تیار ہیں، ابھی سندھ اور بلوچستان نے خریداری کی خواہش کا برملا اظہار نہیں کیا لیکن ہوسکتا ہے کل کو وہ بھی پی آئی اے کے خریدار بن جائیں۔ صوبوں کی ان خواہشوں کے پیچھے سیاسی مقاصد اور ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کا عنصر کارفرما ہے۔

 اگر سیاسی منظر پر تحریک انصاف کے مظلوم کارڈ کے بادل نہ چھائے ہوتے، مطلع صاف ہوتا تو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت، پی ٹی آئی کی پختونخوا حکومت اور نون کی پنجاب حکومت کا آپس میں کارکردگی کا مقابلہ ہوتا جو صوبہ زیادہ اچھی کارکردگی دکھاتا وہ جیت جاتا اور اسے اپنا سیاسی بیانیہ بنانے اور اپنا سیاسی گراف بڑھانے میں مدد ملتی مگر مظلومیت کی ہاہا کار میں پختونخوا حکومت کی کارکردگی اتنی اہم نہیں جتنا کہ اس صوبائی حکومت کا سیاسی بیانیہ۔ تاہم سندھ اور پنجاب دونوں کو اپنی کارکردگی کی فکر بھی ہے اور ان کے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی اسی کارکردگی پر ہوگا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اپنی کارکردگی دکھا کر سیاست میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں، ان کے والد اور چچا کی سیاست کا بیانیہ بھی کارکردگی پر استوار تھا، وہ بھی اسی روایت پر چل رہی ہیں۔ انکا بیوروکریسی پر سخت کنٹرول ہے وہ اپنے احکامات پر عمل میں کسی پس و پیش کو برداشت نہیں کرتیں، میرٹ پر پوسٹنگز اور ان کے فیصلے نہ ماننے والوں کی چھٹی انکی گورننس کے دو اہم ترین نکات ہیں۔ کئی ماہ کے فیصلوں اور پراجیکٹس کی لانچنگ کے بعد انہیں پہلا پھل مظفر گڑھ کے کھارے پانی سے جھینگوں کی کامیاب برداشت کی شکل میں مل گیا ہے۔ پنجاب میں پہلے سمندری جھینگے کھائے جاتے تھے اب کھارے پانی اور بنجر زمینوں کو استعمال میں لاتے ہوئے جھینگوں کی پرورش کی گئی ہے، اگر واقعی یہ سکیم چل پڑی تو پنجاب کی بنجر زمینوں کا ایک قیمتی استعمال شروع ہو جائیگا اور اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔

سبز کتاب

پنجابیوں کو اکثر ’’ڈھگے‘‘ یعنی بے عقل بیل کا طعنہ سننا پڑتا ہے لیکن اب پنجاب نے میدان کے ڈھگوں کو سدھانے کے بعد سمندر کے جھینگوں کو بھی قابو کرلیا ہے۔ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی پر بھی کارکردگی کے حوالے سے شدید دبائو ہے، وزیراعلیٰ سندھ سب وزرائے اعلیٰ سے زیادہ پڑھے لکھے اور قابل ہیں لیکن اپنے منصوبوں کی تشہیر اور تفہیم میں وہ پنجاب اور پختونخوا سے بہت پیچھے ہیں تاہم انہیں یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ انہوں نے صدیوں سے مدفون کوئلہ یعنی بلیک گولڈ استعمال میں لاکر نہ صرف تھر کو ترقی دی ہے بلکہ سستی ترین بجلی بھی پورے پاکستان کو فراہم کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی سب سے بڑی خامی کراچی اور حیدر آباد کی ترقی کو نظر انداز کرنا ہے حالانکہ یہی دو بڑے شہر سندھ کے شو کیس ہیں۔ سندھ نے نجی اور سرکاری شعبے کے اشتراک سے ترقیاتی منصوبے بنانے اور نئے پراجیکٹ چلانے کا جو ماڈل شروع کیا ہے وہ بہت ہی کامیاب ہے۔ سندھ حکومت سٹیل مل کو بھی اسی طریقے سے چلانا چاہتی ہے اور اسکی کوشش ہے کہ سٹیل مل اسے مل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پی آئی اے کی خریداری کے حوالےسے بھی کوئی پیشکش کرے۔ بلاول بھٹو کو علم ہے کہ اگر سندھ نے اس بار پنجاب سے بہتر کارکردگی نہ دکھائی تو ان کے وزیراعظم بننے کے خواب کو دھچکا لگے گا اسلئے وہ سندھ حکومت کو کڑی نگرانی میں رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی ساکھ بہت بہتر ہے لیکن سندھ سے وزارتِ اعلیٰ کے کئی امیدوار پارٹی قیادت سے ان کی شکایتیں کرکےخود انکی جگہ لینا چاہتے ہیں لیکن فی الحال انہیں اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سیاست کے طرح دار کردار ہیں، وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے تعلیمیافتہ ہیں اسلئے انکی سیاست میں آرٹ اور ڈرامہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، تحریک انصاف کی سیاست کو گنڈاپور نے ڈنڈا پوری ہتھکنڈوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری ہو تو وہ نچلے بیٹھ جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ یونیورسٹیاں چلانے کےلیے انکی حکومت کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں لیکن پی آئی اے خریدنے کےلیے انکے پاس ’’پورے‘‘ وسائل ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ واقعی پی آئی اے ان کے حوالے کردی جائے اور پھر انکا کرشمہ دیکھا جائے کہ اس ڈوبے جہاز کو وہ کیسے اڑاتےہیں؟ ان پر جو بھی تنقید کی جائے وہ اس لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے باوجود اپنے لیڈر عمران خان کے آج بھی فیورٹ ہیں، اسی لئے تو عمران خان نے اپنے سب سے قیمتی اثاثے، بشریٰ بی بی کو گنڈا پور کے محفوظ ٹھکانے پر بھجوا دیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کا ہدف کارکردگی نہیں تحریک انصاف کا مزاحمتی بیانیہ زندہ رکھنا ہے اس لیے وہ مفاہمت، انڈرسٹینڈنگ اور خفیہ ملاقاتوں جیسے سب حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ عمران خان کم ہی کسی سے مسلسل خوش رہتے ہیں مگر گنڈا پور اپنے ڈنڈے کی وجہ سے اپنے لیڈر کو مسلسل خوش رکھے ہوئے ہیں انہیں پی آئی اے ملنے کا چانس ہو نہ ہو، وسائل ہوں نہ ہوں انہوں نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی تھی سو کرلی۔ رقبے کے اعتبار سے تضادستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں پیپلزپارٹی کو اقتدار دیکر ایک نیا تجربہ کیا گیا، سرفراز بگتی مقتدرہ کے بااعتبار آدمی ہیں توقع تھی کہ بلوچستان میں تبدیلی سے امن کا کوئی نیا دروازہ کھلے گا لیکن بلوچستان ایک مشہور اور موجودہ زمانے کے لحاظ سے بدنام روایت، انتقام (REVENGE) میں پھنسا ہوا ہے، بلوچی زبان میں اسے بیرگری کہا جاتا ہے یہ پرانی بلوچ روایت کا اہم ترین جزو ہے اور بلوچ آج بھی اسے قابل فخر گردانتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے میرے سامنے اعتراف کیا تھا کہ نواب اکبر بگتی کا قتل فوج کی غلطی تھی، اس احمقانہ فیصلے سے بیرگری کی جو لہر اٹھی ہے اسے کم کرنے کےلیے اہل سیاست کو آگے آنا چاہئے، پہل کرنی چاہئے تاکہ یہ آگ بجھے اور بلوچستان بھی ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگتی نے تاحال پی آئی اے خریدنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا لیکن بلوچستان کو چھوٹے ہوائی جہازوں کی سب سے زیاد ہ ضرورت ہے کیونکہ فاصلے زیادہ ہیں اور سڑکیں ندارد۔

چاروں صوبوں کی سیاست ہی بالآخر مستقبل کے رجحانات طے کرے گی اگلے ہیرو یا زیرو، یہی چار وزیر اعلیٰ ہوں گے…..!

Back to top button