معروف قوال امجد صابری دہشتگردوں کے نشانے پر کیوں آئے؟

معروف قوال امجد صابری کے قتل کو 7 سال ہوگئے، 7 برس پہلے جب اس خونچکاں سانحے کی خبر سامنے آئی تو ہر شخص کے پاس ایک ہی سوال تھا کہ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہوا کمعروف قوال امجد صابری دہشتگردوں کے نشانے پر کیوں آئے؟
معروف قوال امجد صابری کے قتل کو 7 سال ہوگئے، 7 برس پہلے جب اس خونچکاں سانحے کی خبر سامنے آئی تو ہر شخص کے پاس ایک ہی سوال تھا کہ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہوا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اس کا؟
امجد صابری مرحوم ایک خوش آواز، خوش مزاج، خوش اطوار اور خوش خوراک فنکار تھا۔ ساری عمر اس نے حمد، نعت اور منقبت پڑھی، اللہ رسولؐ کا نام لیا اور اسے اسی ڈھنگ میں قبولیت عام حاصل ہوئی۔ نرم مزاج، نرم گفتار اور ہنستا مسکراتا گلوکار ہر ٹی وی شو کی جان تھا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہونے کے باوجود کھانے میں میٹھا کھانے سے نہیں چوکتا تھا، اس ملک کے لوگوں نے اس سے بہت محبت کی۔ بہت پذیرائی کی۔ بہت سراہا۔ یہی شہرت، محبت اور خوشگوار شخصیت اس کی موت کا سبب بن گئی۔
صابری برادرز کی جوڑی بہت ہی مقبول ہوئی اور دنیا بھر میں اس کا شہرہ ہونے لگا۔ غلام فرید صابری، مقبول صابری کے مقابلے میں اللہ لوک آدمی تھے۔ دنیاوی معاملات میں نہ وہ مداخلت کرتے تھے نہ ہی ان معاملات کو وہ سمجھتے تھے۔
شہرت کا ہُما صابری برادرز کے سر پر ایسا بیٹھا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ روپے پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی۔ اس جوڑی کے نام پر لالو کھیت کے گھر میں کئی غریب گھرانے پلنے لگے۔ چونکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق دہلی سے تھا تو وہی انکسار اور اقدار لوٹنے لگیں۔ صدقہ و خیرات میں پہل ہونے لگی۔ کئی گھرانوں کے چولہے ان بھائیوں کے فن سے جلنے لگے۔ اسی دوران دونوں بھائیوں میں اختلاف کی خبریں سامنے لگیں۔ مقبول صابری نے اپنی ایک الگ قوال پارٹی بنا لی۔ ان کی غزلوں اور ٹھمریوں کی سولو کیسٹس منظر عام پر آنے لگیں۔
جو لوگ امجد صابری کو قریب سے جانتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ امجد صابری کی آواز اپنے والد کی آواز سے کچھ مختلف تھی مگر جب وہ گاتے تھے تو بڑی سمجھداری سے اپنے والد کی آواز کو کاپی کرتے تھے، اس ہر دلعزیز فنکار نے ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو ان کے بہیمانہ قتل کی وجہ بنے۔ نہ کسی سے جھگڑا، نہ کسی مسلک کی پیروی نہ کوئی رقم کا تنازع اور نہ کسی سے ذاتی عناد۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امجد صابری کو کیوں قتل کیا گیا؟ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہوا تھا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اس کا؟
معروف لوگوں کو قتل کرنے کا فائدہ دہشت گرد یہ اٹھاتے ہیں کہ ان کے مارے جانے کی خبر لمحہ بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز بنتی ہے، اخباروں میں شہ سرخیاں چھپتی ہیں، سوشل میڈیا چیخ اٹھتا ہے۔ اداریئے لکھے جاتے ہیں، کالم تحریر ہوتے ہیں، ٹاک شوز میں ان سانحات کا ہفتوں ذکر رہتا ہے۔ بے چینی پھیلتی ہے۔ بدامنی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ خوف اور دہشت کی فضا قائم ہوتی ہے۔کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ امور زندگی ادھورے رہ جاتے ہیں۔بے یقینی معاشرے کا مقدر بنتی ہے۔روشنی کے راستے میں پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
ہم بحیثیت قوم ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ہزاروں نوجوان ہم اس جنگ میں گنوا بیٹھے ہیں۔ بے شمار قیمتی جانیں آئے دن ہونے والے دھماکوں میں ضائع ہو چکی ہیں۔ املاک کا نقصان ہو چکا ہے۔ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اب حالات پہلے سے بہتر ہونے شروع ہوئے ہیں۔ کچھ امن کی بحالی کی امید لگی ہے۔ دھماکوں کی تعداد اور رفتار میں کمی ہونے لگی ہے۔ امن کی امید بندھی ہے۔ اب فیصلہ مثبت لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو اس سانحے سے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں اور کسی خونی کشتی میں بیٹھ کر یونان روانہ ہو جائیں یا پھر غم کی اس گھڑی میں ایک دوجے کی ہمت بندھائیں۔ ایک پُر امن پاکستان کے خواب دیکھتے جائیں۔ اثبات کو اپنائیں۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
امجد صابری قتل کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گرد اسحاق بوبی اور عاصم کیپری کو 7 نومبر 2016 کو حراست میں لیا۔ جولائی 2017ء میں امجد صابری قتل کیس فوجی عدالت کو بھیج دیا گیا جہاں سے دونوں ملزموں کو سزائے موت سنائی گئی، سزائے موت کو ملزموں نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، اب یہ کیس زیر سماعت ہے۔
امجد صابری مرحوم ایک خوش آواز، خوش مزاج، خوش اطوار اور خوش خوراک فنکار تھا۔ ساری عمر اس نے حمد، نعت اور منقبت پڑھی، اللہ رسولؐ کا نام لیا اور اسے اسی ڈھنگ میں قبولیت عام حاصل ہوئی۔ نرم مزاج، نرم گفتار اور ہنستا مسکراتا گلوکار ہر ٹی وی شو کی جان تھا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہونے کے باوجود کھانے میں میٹھا کھانے سے نہیں چوکتا تھا، اس ملک کے لوگوں نے اس سے بہت محبت کی۔ بہت پذیرائی کی۔ بہت سراہا۔ یہی شہرت، محبت اور خوشگوار شخصیت اس کی موت کا سبب بن گئی۔
صابری برادرز کی جوڑی بہت ہی مقبول ہوئی اور دنیا بھر میں اس کا شہرہ ہونے لگا۔ غلام فرید صابری، مقبول صابری کے مقابلے میں اللہ لوک آدمی تھے۔ دنیاوی معاملات میں نہ وہ مداخلت کرتے تھے نہ ہی ان معاملات کو وہ سمجھتے تھے۔
شہرت کا ہُما صابری برادرز کے سر پر ایسا بیٹھا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ روپے پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی۔ اس جوڑی کے نام پر لالو کھیت کے گھر میں کئی غریب گھرانے پلنے لگے۔ چونکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق دہلی سے تھا تو وہی انکسار اور اقدار لوٹنے لگیں۔ صدقہ و خیرات میں پہل ہونے لگی۔ کئی گھرانوں کے چولہے ان بھائیوں کے فن سے جلنے لگے۔ اسی دوران دونوں بھائیوں میں اختلاف کی خبریں سامنے لگیں۔ مقبول صابری نے اپنی ایک الگ قوال پارٹی بنا لی۔ ان کی غزلوں اور ٹھمریوں کی سولو کیسٹس منظر عام پر آنے لگیں۔
جو لوگ امجد صابری کو قریب سے جانتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ امجد صابری کی آواز اپنے والد کی آواز سے کچھ مختلف تھی مگر جب وہ گاتے تھے تو بڑی سمجھداری سے اپنے والد کی آواز کو کاپی کرتے تھے، اس ہر دلعزیز فنکار نے ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو ان کے بہیمانہ قتل کی وجہ بنے۔ نہ کسی سے جھگڑا، نہ کسی مسلک کی پیروی نہ کوئی رقم کا تنازع اور نہ کسی سے ذاتی عناد۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امجد صابری کو کیوں قتل کیا گیا؟ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہوا تھا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اس کا؟
معروف لوگوں کو قتل کرنے کا فائدہ دہشت گرد یہ اٹھاتے ہیں کہ ان کے مارے جانے کی خبر لمحہ بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز بنتی ہے، اخباروں میں شہ سرخیاں چھپتی ہیں، سوشل میڈیا چیخ اٹھتا ہے۔ اداریئے لکھے جاتے ہیں، کالم تحریر ہوتے ہیں، ٹاک شوز میں ان سانحات کا ہفتوں ذکر رہتا ہے۔ بے چینی پھیلتی ہے۔ بدامنی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ خوف اور دہشت کی فضا قائم ہوتی ہے۔کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ امور زندگی ادھورے رہ جاتے ہیں۔بے یقینی معاشرے کا مقدر بنتی ہے۔روشنی کے راستے میں پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
ہم بحیثیت قوم ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ہزاروں نوجوان ہم اس جنگ میں گنوا بیٹھے ہیں۔ بے شمار قیمتی جانیں آئے دن ہونے والے دھماکوں میں ضائع ہو چکی ہیں۔ املاک کا نقصان ہو چکا ہے۔ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اب حالات پہلے سے بہتر ہونے شروع ہوئے ہیں۔ کچھ امن کی بحالی کی امید لگی ہے۔ دھماکوں کی تعداد اور رفتار میں کمی ہونے لگی ہے۔ امن کی امید بندھی ہے۔ اب فیصلہ مثبت لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو اس سانحے سے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں اور کسی خونی کشتی میں بیٹھ کر یونان روانہ ہو جائیں یا پھر غم کی اس گھڑی میں ایک دوجے کی ہمت بندھائیں۔ ایک پُر امن پاکستان کے خواب دیکھتے جائیں۔ اثبات کو اپنائیں۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
امجد صابری قتل کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گرد اسحاق بوبی اور عاصم کیپری کو 7 نومبر 2016 کو حراست میں لیا۔ جولائی 2017ء میں امجد صابری قتل کیس فوجی عدالت کو بھیج دیا گیا جہاں سے دونوں ملزموں کو سزائے موت سنائی گئی، سزائے موت کو ملزموں نے سندھ
ساجد سدپارہ نانگا پربت بغیر اضافی آکسیجن سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے
ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، اب یہ کیس زیر سماعت ہے۔