راجیش کھنہ کو لڑکیوں نے خون سے خط کیوں لکھے؟

معروف بالی ووڈ سٹار راجیش کھنہ نے 1966 میں فلم ’’آخری خط‘‘ سے ڈیبیو کیا جس کے بعد مسلسل 15 سپرہٹ فلمیں دے کر ایسا ریکارڈ قائم کیا جوکہ آج تک برقرار ہے، ان کی زبان سے ادا کیے گئے مکالمے ’’زندگی بڑی ہونی چاہئے لمبی نہیں‘‘ یا پھر ’’آئی ہیٹ ٹیئرز‘‘ ایک عرصے تک نوجوانوں کی زبانوں پر رہے جو اس وجیہہ اداکار کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب رہا کرتے تھے۔آزادی سے قبل متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں 29 دسمبر 1942 کو پیدا ہونے والے جتن کھنہ (فلمی نام راجیش کھنہ) کے لیے بالی وڈ میں اپنی جگہ بنانا آسان نہیں تھا کیونکہ اس وقت تک ہندی سنیما دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند کی اداکاری کے سحر سے نہیں نکلا تھا۔ایسے میں راجیش کھنہ کی فلمی زندگی کا آغاز 1966 میں آنے والی فلم ’آخری خط‘ سے ہوا اور پھر انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔یہاں تک کہ 1972 تک انہوں نے ’آرادھنا‘، ’ڈولی‘، ‘دو راستے‘، ’آن مِلو سجنا‘، اور ’ہاتھی میرے ساتھی‘ جیسی ہِٹ فلمیں دے کر جہاں ایک طرف اپنی اداکاری کا لوہا منوایا وہیں وہ ہندی سنیما کے پہلے سُپرسٹار کہلائے۔فلم ’آرادھنا‘ کی کامیابی کے بعد ہدایت کار شکتی سامنت کو یوں لگا جیسے انہیں کوہِ نور ہیرا مل گیا ہو جو ان کی فلموں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ’کٹی پتنگ‘، ’امر پریم‘، ’انوراگ‘، ’اجنبی‘، ’انورودھ‘ اور ’آواز‘ جیسی فلموں میں ان کے ساتھ کام کیا۔
فلمی نقاد یاسر عثمان کی کتاب ’راجیش کھنہ دی اَن ٹولڈ سٹوری آف انڈیاز فرسٹ سپرسٹار‘ کے پیش لفظ میں سلیم خان 1970 کی دہائی میں راجیش کھنہ کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ 1975-1969 کے درمیان ان کے سپر سٹارڈم کو قریب سے دیکھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ وہ سٹارڈم کی جس بلندی پر پہنچے وہ ہندی سنیما کی دنیا میں کسی اور سٹار نے کبھی حاصل نہیں کی۔‘ راجیش کھنہ نے 1976 تک جن فلموں میں کام کیا وہ ہٹ رہیں۔ راجیش کھنہ کا وہ سنہری دور تھا لیکن بالی وڈ کے ’بِگ بی‘ یعنی امیتابھ بچن کی آمد نے بالی وڈ میں رومانس کا جادُو بکھیرنے والے اداکار کی سلطنت کو تہہ و بالا کر دیا اور ’اینگری ینگ مین‘ کی کامیابیوں کا بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔فلم آنند میں راجیش کھنہ کا بولا گیا ڈائیلاگ ’بابو موشائے….. ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کی انگلی سے بندھی ہوئی ہیں، کب کس کی ڈور کھِنچ جائے یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔یہ مکالمہ اُن دنوں فلم بینوں میں کافی مقبول ہوا تھا اور آج بھی ناظرین اِسے بھلا نہیں پائے۔ ویسے یہ خیال شیکسپیئر کے معروف ڈرامے ’ایز یُو لائک اِٹ‘ سے ماخوذ ہے۔1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آرادھنا‘ 100 روز تک جنوب کی کئی زبانوں میں چار شوز کے ساتھ چلتی رہی لیکن ’آرادھنا‘ میں کردار نبھانے والی شرمیلا ٹیگور کہتی ہیں کہ ان کی یہ فلم 50 ہفتوں تک ناظرین کو لُطف اندوز کرتی رہی۔جس طرح راجیش کھنہ نے شہرت کی بلندی پائی اسی طرح جلد ہی ان کا گراف اچانک نیچے آگرا۔ ان کے ساتھ کام کر چکے اور فلم ’شعلے‘ میں جیلر کا کردار نبھانے والے مشہور اداکار گووردھن اسرانی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ’راجیش کھنہ اس وقت احساسِ برتری میں مبتلا ہو گئے تھے اور اپنے زوال کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔راجیش کھنہ کے کئی مشہور نغمے آج بھی کسی محلے میں شادی یا دوسری تقریبات میں سننے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے بیشتر بیک گراؤنڈ گیت کشور کمار کی آواز میں ہیں جو کہ اپنے آپ میں محمد رفیع اور طلعت محمود کی مخملی آواز کی روایت سے انحراف ہے۔ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور کانگریس پارٹی کی جانب سے رکن پارلیمان بھی رہے۔’ریشمی زلفوں‘ اور ’شربتی آنکھوں والی سپنوں کی رانی‘ سے ’دل کے چین‘ آنے کی دعا کرواتے کرواتے بالی وڈ کے پہلے سُپرسٹار نے ’اچھا تو ہم چلتے ہیں‘ کہہ کر 18 جولائی 2012 کو دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

Back to top button