چینی انجینئرز پر حملے کےلیے RAW نے ایک کروڑ روپیہ فراہم کیا
کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش حملے میں دو چائینیز انجینئرز کی ہلاکت کہ بعد سے جاری تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ حملہ بی ایل اے کی حال ہی میں تشکیل شدہ انٹیلی جینس ونگ "زراب” نے کیا۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک منظم کارروائی تھی جس میں بلوچ عسکریت پسند تنظیم کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کی جانب سے خطیر سرمایہ صرف کیا گیا۔ حملے میں استعمال ہونے والی ڈبل کیبن ویگو خریدنے کے لیے "را” کی جانب سے 70 لاکھ روپیہ فراہم کیا گیا۔
کراچی پولیس افسر کے تحقیقاتی سینئیر افسر بتایا کہ اس کارروائی میں کم سے کم ایک کروڑ پاکستانی روپوں سے زائد کے اخراجات ہوئے جس میں ڈبل کیبن کی مالیت اور دھماکہ خیز مواد کی خریداری اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس خودکش دھماکے میں اندرونی ہاتھ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ چینی انجینئیرز کی آمد کو خفیہ رکھا گیا تھا لیکن ان کی آمد کا شیڈول لیک ہو گیا۔
28 سالہ شاہ فہد بادینی وشکی کا رہائشی ہے
وائس آف امریکہ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق خود کش حملے کی ایف آئی آر میں پہلی بار حکام نے تسلیم کیا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا جو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے کیا۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں ماسٹر مائنڈ کمانڈر بشیر احمد بلوچ عرف بشیر زیب اور عبدالرحمان عرف رحمان گل اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خودکش بلوچ بمبار کی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد غیر ملکی دُشمن خفیہ ایجنسی کی مدد سے نصب کیا گیا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنا تھا۔ اس سے قبل پولیس حکام یہ بتانے سے گریز کررہے تھے کہ یہ حملہ دہشت گردی کی واردات بھی ہے یا نہیں۔ اگرچہ پولیس نے ایف آئی آر میں خودکش حملہ آور کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم پولیس حکام سے معلوم ہوا کہ حملہ آور 28 سالہ شاہ فہد بادینی وشکی کا رہائشی ہے جس نے لسبیلہ کی ایک یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی۔ بمبار نوشکی کے مرکزی علاقے سردار بادینی سے تعلق رکھتا تھا۔ کالعدم بی ایل اے نے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ فہد عرف آفتاب کا تعلق بی ایل اے کے مجید بریگیڈ سے تھا اور وہ 2019 سے تنظیم سے وابستہ تھا۔ بی ایل اے نے بیان میں مذید کہا کہ شاہ فہد کو تین سال تربیت کے بعد ایک سال قبل یہ مشن سونپا گیا تھا۔
کراچی میں چینی انجینئرز کو مارنے والا اعلیٰ تعلیم یافتہ نکلا
سول ایوی ایشن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ خود کش حملے کی رات مختلف فلائٹس سے کم از کم 44 چینی شہری کراچی پہپنچے تھے جو سی پیک اور آئی پی پی دونوں منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ادھر بی ایل اے نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ خودکش حملہ بی ایل اے کے انٹیلی جینس ونگ ‘زراب’ نے کیا۔ زراب بی ایل اے کا منظم و مربوط انٹیلی جینس ونگ ہے جو پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک ریسرچرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، ڈیٹا انالسٹ اور تفتیش کاروں پر مبنی ہے۔ لیکن سکیورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بی ایل اے کا انٹیلی جینس ونگ اس قدر مضبوط اور منظم ہو چکا ہے کہ وہ اس طرح کی بڑی کارروائیاں کرنے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ رواں برس 26 اگست کو بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں کافی منظم اور مربوط تھیں اور ان کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے ہی قبول کی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بی ایل اے کی کوشش ہے کہ وہ خود کو ایک مکمل آرمی کے طور پر متعارف کرائے اور ان کا ایک ملیشیا یا عسکریت پسند گروپ کا تاثر ختم ہو۔
ان کے مطابق پہلے چار مختلف بلوچ گروپس کو ایسی کارروائیوں کے لیے فنڈنگ ملا کرتی تھی لیکن اب صرف بی ایل اے ہی کافی فعال نظر آتی ہے اور ان کارروائیوں سے لگتا ہے کہ ان کو کافی بڑے پیمانے پر فنڈنگ مل رہی ہے۔ ادھر اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے چینی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کا سفر کرنے سے گریز کریں، جہاں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کو نشانہ بنانے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔