ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور لیکچرز کی ٹائمنگ درست کیوں نہیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور لیکچرز کی ٹائمنگ درست نہیں، بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنازے کے وقت عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ان کے مطابق اس وقت سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ امت مسلمہ کو خود پر مسلط کردہ جنگ سے کس طرح نکالا جائے اور جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے لیس اسرائیل جیسے دشمن کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لہٰذا اس وقت ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کے لیکچرز کی نہیں بلکہ کسی جدیدیت پسند مدبر سیاستدان کی ضرورت ہے جو ہماری سوچ کا زاویہ بدل سکے اور اسے جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد کر سکے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج اور ہماری آخرت کا سہارا ہیں۔ ہمیں جو تھوڑ ابہت دین کی سمجھ ہے وہ انہی علما ومشائخ کے وجود سے ممکن ہوئی ہے۔ پوری مسلم دنیا علماء کا احترام کرتی ہے۔ بھارت چھوڑ کر ملائشیا میں جا بسنے والے حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کا میرے دل میں انتہائی احترام ہے، وہ قرآن کی ایک ایک آیت کو جیسے کھول کر بیان کرتے ہیں اس سے قلب و ذہن کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حقانیت کو جیسے وہ ثابت کرتے ہیں اس میں ان کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ آج وہ واحد مبلغ ہیں جو عیسائیوں، ہندوئوں اور یہودیوں کو ایسا مسکت جواب دیتے ہیں کہ وہ لاجواب ہو جاتے ہیں، اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اب تک ہزاروں لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکے ہیں، میرے جیسے گناہگار تو ان کے احسانات کا بدلہ تک نہیں اتار سکتے۔
سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ ان سب معروضات کے بعد میں ڈرتے ڈرتے یہ سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ ایسے میں جب کہ غزہ اور لبنان میں تباہی پھیلی ہوئی ہے اور اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلم ممالک کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے، کیا ذاکر نائیک کو پاکستان بلا کر ان مصائب سے نکلنے کا کوئی حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟ اگلا سوال یہ ہے کہ اگر آج مسلم اُمہ کے زوال کی وجہ ایمان کی خرابی ہے تو پھر حماس جیسے مذہب پر سختی سے کاربند لوگ ہی کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ حزب اللہ جیسے کٹر مذہبی سپاہی ہی کیوں عذاب میں مبتلا ہیں؟ دارصل اس وقت عالم اسلام اور اُمہ کو دینی نہیں دنیاوی مسئلہ درپیش ہے۔ آج بالکل وہی صورت حال بنی ہے جو غلام ہندوستان میں مسلمانوں کی تھی۔ دیوبند، بریلی، اہل حدیث اور شیعہ مکتب فکر کے بڑے بڑے اکابر ملت موجود تو تھے مگر مسلمانوں کے مسائل کا حل بلاخر کلین شیون ڈاکٹر سر اقبال اور جدید تعلیم یافتہ مسٹر جناح نے دیا جنہیں ہم نے بعد میں علامہ اقبال اور قائد اعظم بنا دیا۔ آج بھی ہمیں کسی ذاکر نائیک کی نہیں بلکہ ایک نئے مسٹر جناح اور سر محمد اقبال کی ضرورت ہے، آج مناظرے کی نہیں ہمیں بلکہ تنازعے کا حل بتانے والے کی ضرورت ہے۔
سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے میرا نہ کوئی مذہبی اختلاف ہے نہ مسلکی اور نہ ہی ذاتی، بلکہ مجھے موقع ملا تو ان سے ایمان اور آخرت کے حوالے سے کچھ سیکھنے کو اپنے لیے سعادت سمجھوں گا، مگر مسئلہ ٹائمنگ کا ہے۔ دراصل جنازے کے وقت عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ آج کا بڑا ایشو یہ ہے کہ امت مسلمہ خود پر نازل کردہ جنگ سے کیسے نکلے؟جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا مقابلہ کیسے کرے؟ یادش بخیر، سرسید احمد خان مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہونے کے باوجود اس کی عظمت رفتہ کی داستانیں لکھ رہے تھے، انہوں نے روایتی علماء کی سوچ سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور جدید علوم کی تعلیم دلانے کا مشن شروع کر دیا۔ اگر دیو بند، لکھنؤ اور بریلی کے دبستانوں کی سنی جاتی تو وہ تو جدید تعلیم کو زہر قاتل قرار دے رہے تھے، یہ جدید تعلیم ہی تھی جس نے اقبال اور جناح تیار کئے اور پھر ان ہی نے پاکستان کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جہاں تک دینی معاملات کا تعلق ہے، مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی، مفتی سواد ِاعظم مفتی منیب الرحمان، حضرت علامہ ساجد میر اور ملت جعفریہ کے قائد راجہ ناصر جیسے بلند پایہ علمائے کرام کی موجودگی میں پاکستان کے لوگوں کی مذہب سے وابستگی اور پیروی کو کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں ایک طرف تو ہم غزہ اور بیروت کی کربلا سہہ رہے ہیں تو دوسری طرف کیا ہم پھر سے اس بحث میں پڑ جائیں کہ نماز ہاتھ کھول کر پڑھنا درست ہے یا ہاتھ باندھ کر؟ کیا ذاکر نائیک کے مناظروں سے انہی متنازعہ امور کو دوبارہ سے ہوا نہیں مل رہی؟ کیا امت مسلمہ کو یاد نہیں کہ سقوط بغداد کے وقت جب ہلاکو خان مسلمانوں کے سروں سے مینار تعمیر کر رہا تھا تو تب بھی ہم ایسے ہی مناظروں میں الجھے ہوئے تھے۔ تب مبلغین اپنے اپنے عقائد کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے تھے اور منگول فوجی ان کے عقائد سے قطع نظر سب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے، تو کیا ہم پھر سے بغداد کی تاریخ دہرانے کے درپے ہیں؟ کیا ہم لوگ سلطنت عثمانیہ کا زوال بھول گئے؟ کیا ہم پھر انہی تاریک راہوں کی طرف لوٹ رہے ہیں؟۔ کیا ہمیں سقوط ڈھاکہ بھول گیا جب مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین تعصب کی لڑائی ڈالی گئی اور بھارت کو پاکستان توڑنے کا موقع مل گیا۔ کیا یہ وقت مختلف مکاتب فکر میں اتحاد کا ہے یا یہ ثابت کرنے کا کہ مزار پر جا کر دعا مانگنی جائز ہے یا نہیں یا پھر رسول ِاکرم ﷺ کو غیب کا علم تھا یا نہیں۔ سہیل وڑائج کہتے ہیں میرا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مشورہ ہے کہ حضرت اپنی یہ قادر الکلامی کسی اور وقت تک اٹھا رکھیں، آپ اپنے عقائد کی حقانیت بعد میں ثابت کر لیجئے گا، ابھی یہ وقت اتحاد کا ہے، ہمیں ایک نئے اقبال اور نئے جناح کی ضرورت ہے کسی ایسے مولانا، حضرت یا ڈاکٹر کی نہیں جو فرقہ وارانہ مسائل پر اتھارٹی ہو، ہمیں تو وہ چاہیے جو مغربی دنیا کے مقابل کھڑا ہونے کا طریقہ بتائے، جو ہمارے اتحاد کا ذریعہ بنے، کوئی راستہ نکالے کہ غزہ اور بیروت کی تباہی کیسے روکیں، ہمیں ایسا مفکر چاہیے جو یہ بتا سکے کہ ایران محفوظ اور پرامن کیسے رہ سکتا ہے۔ جو ایسے اقدامات بتائے جن سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ رہ سکے۔ ہمیں ٹیکنالوجی اور سائنس میں اسرائیل اور امریکہ کی مسابقت کا فارمولا بتانے والا شخص چاہیے۔ مختصر یہ کہ اس وقت مناظر کی نہیں بلکہ مدبر کی ضرورت ہے، بحران میں مردِ بحران چاہیے ہوتا ہے، ماہر علم الکلام نہیں۔ امت مسلمہ کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے، اسے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو جوڑ سکے، جو اتفاقات تلاش کرے اور اختلافات نہ ڈھونڈے، کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک اس کام کیلئے موزوں ہیں؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع پر کسی ایسے مرد مومن اور زیرک نگاہ کو پاکستان بلانا چاہیے تھا جو ڈاکٹر سر اقبال کی طرح خطبات مدارس دے کر مسلمانوں کو نئی دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کا کوئی حل بتاتا، جو ہمیں گائیڈ کرتا کہ اسرائیل کی ڈیجیٹل جنگ کا مقابلہ کس تکنیک سے کرنا ہے، ہمارے مذہبی مقرر کیا جانیں اسرائیل کے غیر مرئی مصنوعی ذہانت یونٹ 8200 کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ صبحو شام مناظرے کرنے والے مبلغین کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام ’’لونڈر‘‘ اور ’’گوسپل‘‘ کس طرح چن چن کر فلسطینیوں اور لبنانی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لہازا اگر پاکستان بلانا یے تو مصنوعی ذہانت یا ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بلائیں، کیونکہ ہمارا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سائنسی ہے، جناب!!