پیٹرول اور بجلی کی قیمت میں ریلیف واپس ہونے کا امکان
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پانچ روپے کمی کے اعلان پر یوٹرن لئے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد حکومت سخت دباؤ میں آ گئی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ حال ہی میں دی جانے والی ریلیف واپس لے لی جائے۔ تاہم عوام کا مطالبہ ہے کہ ناقابل برداشت سبسڈی کا بہانہ بنا کر یہ ریلیف واپس لینے کی بجائے وزیراعظم عمران خان کو اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے شروع ہونے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے اور عالمی منڈی میں اس کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے تیل کی قیمتوں کے ساتھ بجلی کے نرخوں میں کمی لا کر انھیں اگلے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا ہے یعنی حکومتی اعلان کے مطابق تیل اور بجلی کی قیمتیں آئندہ بجٹ تک نہیں بڑھائی جائیں گی۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیا جانے والا یہ ’ریلیف پیکج‘ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے کا سامنا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ملکی محصولات میں 280 ارب سے زائد ہونے والے اضافے کے ذریعے اس ریلیف پیکج کو جاری کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ٹیکس کے ذریعے مزید آمدن کو بھی عوام کو ریلیف دینے کی مد میں استعمال کیا جائے گا۔
حکومتی اندازوں کے مطابق پٹرول، ڈیزل، بجلی کے نرخوں میں کمی اور کچھ دوسرے ریلیف اقدامات کی صورت میں 237 ارب روپے کے اضافی اخراجات اپنے خزانے سے ادا کرنے پڑیں گے۔ وزیر اعظم کی جانب سے جب گذشتہ ہفتے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا تھا تو اُس وقت تیل کی عالمی منڈی میں قیمت سو ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ تھی تاہم گذشتہ چند روز میں اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔
اس گھمبیر صورتحال میں ایک اہم سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا حکومت اس ریلیف پیکج کو رواں برس جون، یعنی اگلے بجٹ کے اعلان تک، فنانس کر پائے گی؟ اس کے بارے میں تیل اور معیشت کے شعبے سے وابستہ افراد تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جس رفتار سے تیل کی عالمی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ایسی صورتحال میں بجٹ سے عالمی اور مقامی قیمتوں میں خسارے کو فنانس کرنا دشوار ہو جائے گا۔
تاہم وزارت خزانہ کے مطابق حکومت اس ریلیف پیکج کو فنانس کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اس کی جانب سے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ چند روز میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں نیچے آئیں گی۔
خیال رہے کہ جب حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں کو بجٹ تک منجمد کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت تیل کی عالمی قیمتیں سو ڈالر کے لگ بھگ تھیں تاہم سوموار کے روز کاروباری ہفتے کے آغاز پر عالمی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہیں۔ تیل کے شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی قیمت کا تعین عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ماہانہ دو ارب لیٹر پٹرول اور ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور اگر تخمینہ لگایا جائے تو عالمی اور مقامی قیمتوں میں چالیس ارب کا فرق ہو گا جو حکومت کو پرائس ڈیفرنشل کلیم یا پی ڈی سی کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ حکومت نے ابتدائی طور پر صرف بیس ارب اس مد میں رکھے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے بعد قیمتوں میں اچانک اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ سارے حکومتی تخمینے غلط ہو گئے اور آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے سبسڈی دینا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
ایک سرکاری سمری کے مطابق مارچ کے مہینے میں تیل کی عالمی قیمتوں کا تخمینہ 111 ڈالر فی بیرل رکھا گیا اور اس پر حکومت نے 12 ارب کی سبسڈی دینے کا تخمینہ لگایا، تاہم اب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے سبسڈی کی رقم مزید زیادہ بڑھ جائے گی۔ واضح رہے کہ تیل کی قیمتوں کو اگلے مالی سال کے بجٹ تک منجمد رکھنے کے لیے حکومت نے جو منصوبہ بنایا ہے اسے وفاقی حکومت کی پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے ایک سمری کی صورت میں حکومت کو پیش کیا گیا تھا۔
اس کے تحت حکومت تیل کے شعبے کی کمپنیوں کو عالمی مارکیٹ میں مہنگا تیل خرید کر مقامی مارکیٹ میں ارزاں نرخوں پر فراہمی کے عوض انھیں سبسڈی دے گی جسے ’پرائس ڈیفرنشل کلیم‘ کہا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب پٹرول کی قیمت 149.86 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت 114.15 فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جو حکومتی اعلان کے مطابق رواں برس جون میں بجٹ پیش ہونے تک اسی سطح پر برقرار رہیں گی۔
حکومت نے اس سلسلے میں ابتدائی طور پر 20 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی ہے جو تیل کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کو تیل کی قیمت موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے دی جائے گی۔ حکومت نے اس سلسلے میں پٹرولیم لیوی کو ڈیزل پر صفر اور پٹرول پر 1.81 روپے فی لیٹر کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے 111 ڈالر فی بیرل کی قیمت پر جو تخمینہ لگایا گیا اس کے مطابق مارچ کے پہلے پندرہ روز میں حکومت 12 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرے گی۔
حکومت کے ریلیف پیکج کے تحت بجلی، ڈیزل اور پٹرول کی کم نرخوں پر فراہمی کے سلسلے میں حکومت کو خسارہ ملکی خزانے سے ادا کرنا پڑے گا۔ ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا اگر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو مشکل ہو جائے گی، تاہم اگر تیل کی قیمتیں نیچے آتی ہیں تو حکومت کا ریلیف پیکج برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو مزید تیل سپلائی کے لیے کہا گیا ہے تو ایران کے ساتھ نیوکلیئر مذاکرات پر کامیابی کی صورت میں ایک ملین بیرل تیل عالمی منڈی میں آئے گا جو قیمتوں کو استحکام دے گا۔ ان خدشات کے برخلاف وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم تیل و ایندھن کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی وجہ سے ریلیف پیکج پر کسی منفی اثر کے امکان کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت نے ڈھائی سو ارب اس پیکج کے لیے مختص کیے ہیں۔
اسلام آباد میں فائرنگ سے خاتون سمیت چار افراد قتل
انھوں نے کہا جب حکومت نے یہ ریلیف پیکج دینے کا ارادہ کیا تو تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کا دھیان رکھا گیا تھا، اس لیے تو ڈھائی سو ارب کی خطیر رقم مختص کی گئی۔ انھوں نے کہا اگر 28 فروری کو قیمتوں پر نظر ثانی سے لے کر آج تک دیکھ لیں تو حکومت کو ابھی تک ایک ارب کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے کہا یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے تخمینے سے زیادہ خرچ کرے تاہم اس کے لیے حکومت کو مالی طور پر کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔