کیا سیف العدل ظواہری کی جگہ نیا القاعدہ چیف بنے گا؟

31 جولائی کو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے القاعدہ کے چیف ڈاکٹر ایمن الظواہری کی جانشینی کا معاملہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود لٹکا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ اس عہدے کے امیدواروں کی لسٹ کا لمبا ہو جانا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ نئے القاعدہ سربراہ کے امیدواروں کی دوڑ میں سیف العدل اور عبدالرحمٰن المغربی کے علاوہ اب ابو عبیدہ یوسف العنابی، خالد باطرفی، اور عمر احمد دیری بھی شامل ہوچکے ہیں۔ بنیاد پرست تحریکوں کے امور کے ماہر مصری محقق احمد زغلول کے مطابق اب القاعدہ زوال کی شکار ہو رہی ہے اور یہ صورتحال نئے سربراہ کے امتحان کے طور پر سامنے آئی ہے کیونکہ نئے امیر کے انتخاب پر شدید اندرونی اختلافات ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایمن الظواہری کی جگہ لینے کے لیے سب سے زیادہ پرامید محمد صلاح زیدان ہیں جن کا زیادہ معروف نام کمانڈر ’سیف العدل‘ ہے۔

عمران نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق بیان کی تردید کر دی

خیال کیا جاتا ہے کہ بالآخر القاعدہ کے نئے سربراہ کے لیے سیف العدل کا نام ہی فائنل ہوگا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف اسامہ بن لادن بلکہ ایمن الظواہری کے بھی قریب تھے۔ 60 سالہ سیف العدل اپنے عسکری تجربے کی بدولت القاعدہ کے ایک تجربہ کار رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالرز مقرر کر رکھی ہے اور انہیں دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔ سیف العدل نے اپنی جوانی سے ہی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اپنی موت کا دھوکہ دیا اور انہیں مکمل یقین دلایا کہ وہ کوئی اور ہیں۔ انکی صرف تین تصویریں ایسی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ سیف العدل کی اصلی شکل کیسی ہے۔ پتلے چہرے والے اس فرد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا اصل نام محمد صلاح زیدان ہے۔ وہ 1989 میں افغانستان چلے گئے، پھر وہ القاعدہ میں شامل ہوئے اور اپنے سابق تجربات کی روشنی میں اس کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسکے علاوہ اس نے کئی تنظیموں کے قیام میں حصہ لیا۔ تنظیم کی علاقائی شاخیں، خاص طور پر ہارن آف افریقہ میں وہ سرگرم رہے۔

کہا جاتا ہے کہ سیف العدل نے مصری فوج کے ایک خصوصی یونٹ میں شمولیت کے دوران دھماکہ خیز مواد اور انٹیلی جنس سرگرمیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ ان پر شبہ ہے کہ انہوں نے 1980 کی دہائی کے آخر میں سوویت قبضے کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان کا سفر کیا۔ اسی وقت پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں القاعدہ کا قیام عمل میں آیا۔ جلد ہی سیف العدل اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کی قیادت میں اوپر کے نمبر پر آ گئے اور افغان کیمپ میں تربیت کی قیادت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے سوڈان اور صومالیہ میں دوسرے کیمپ قائم کیے اور یمن میں القاعدہ کی جزیرہ نما عرب کی شاخ کی بنیاد رکھی۔کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن جنہیں 2011 میں پاکستان میں امریکی سپیشل فورسز کے ایک یونٹ کے ہاتھوں ہلاک کیا گیا تھا، سیف العدل سے زیادہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
ماسٹر پلانر کے طور پر سیف العدل نے القاعدہ کے دو بڑے حملوں میں حصہ لیا۔ پہلا مشرقی افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر حملے، جہاں 1998 کے حملے میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور دوسرا امریکی بحری بیڑے ’کول‘ پر 2000 میں حملہ، جس میں 17 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔

11 ستمبر، 2001 کے حملوں اور امریکی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد سیف العدل نے قندھار کے دفاع کی کمان سنبھالی۔ سیف العدل ایک انتہائی لچک دار اور وسائل رکھنے والے فوجی رہنما ثابت ہوئے۔ اس کے بعد سیف ایران فرار ہو گئے جہاں 2010 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے سے قبل انہوں نے اگلی دہائی کا بیشتر حصہ تہران میں گھر پر نظربندی میں گزارا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بالآخر القاعدہ کے نئے سربراہ کے لیے سیف العدل کا نام ہی فائنل ہوگا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف اسامہ بن لادن بلکہ ایمن الظواہری کے بھی قریب تھے۔

Back to top button