بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے ہتھیار کیوں ڈالے؟
بلوچستان میں مبینہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کے حالیہ واقعے کو سرکاری طور پر ایک اہم پیشرفت قراردیا جارہا ہے تاہم حکومتی دعوؤں کے برعکس عسکریت پسندی اور سلامتی کے امور پر دسترس رکھنے والے بعض مبصرین نے اسے ایک متنازعہ اور غیراہم واقعہ قرار دیا ہے ۔ناقدین کے مطابق عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے سرکاری دعوے لاپتہ افراد کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچوں کا احساس محرومی دور کرے۔ناقدین کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران صوبے میں بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے ہونے والی تمام تر حکومتی کوششیں تاحال بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں ۔
خیال رہے کہ 20 دسمبر کے روز کوئٹہ میں اپنے ستر ساتھیوں کے ہمراہ ہتھیار ڈالنے والے کالعدم تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی بی این اے کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے دعویٰ کیا کہ بلوچ مسلح تنظیموں سے وابستہ دیگر کئی لوگ بھی ہتھیار پھینک کرقومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ بی این اے کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی بلوچستان کے محکمہ خوراک کے سابق ملازم ہیں اور وہ 2009 میں بلوچ مسلح تحریک کا حصہ بنے تھے۔ 55 سالہ بنگلزئی گزشتہ ایک دہائی سے صوبے میں حکومت کے خلاف جاری لڑائی میں دو کالعدم تنظیموں بلوچ یونائیٹڈ آرمی اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی نامی تنظیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے سرفراز بنگلزئی کالعدم بلوچ یونائٹڈ آرمی میں ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں ۔ یو بی اے میں سرفراز کا کوڈ نام مرید بلوچ تھا ۔ جس کے تحت وہ صوبے کے مختلف حصوں میں ہونے والے درجنوں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری کرتے رہے ہیں۔بی این اے کے سابق سربراہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری کے بعد رواں سال اپریل میں سرفراز بنگلزئی کو تنظیم نے نئے سربراہ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ سرفراز کے دو بیٹے بھی علیحدگی کی تحریک میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں ۔
کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت نے 2015 میں بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس پیکیج کے تحت ہتھیار ڈالنے والے افراد کی بحالی کے لیے کروڑوں روپے کی مالی امداد کے دعوے بھی ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں ۔ موجودہ نگران حکومت نے چند یوم قبل ایک قبائلی جرگےکا کوئٹہ میں انعقاد کیا تھا۔ اس جرگے کے شرکاء نے ریاست کو ناراض بلوچ قائدین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی نے جرگے سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت مقاہمتی عمل کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی ۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ نگران حکومت اتنی باآختیار نہیں کہ ناراض بلوچ قائدین کے مطالبات پر غور کر سکے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی ان بلوچ قائدین میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے دور حکومت میں بلوچ قائدین سے قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے رابطہ کیا تھا۔
انسانی حقو ق کی سرگرم کارکن حمید ہ بلوچ کہتی ہیں بلوچستان کے دیرینہ معماملات پر جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر توجہ نہیں دی جائے گی ، حالات میں مطلوبہ بہتری سامنے نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہا، "جب ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے تب صوبے میں قومی مفاہمت کی پالیسی اختیار کی گئی تھی ۔ ناراض بلوچ قائدین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کئی نتیجہ خیز اقدامات سامنےآئے تھے ۔ اگر ان کوششوں کو جاری رکھا جاتا اور ناراض قائدین کے مطالبات پر سنجیدگی سے توجیہ دی جاتی تو شاید آج حالات اس قدر گھمبیر نہ ہوتے۔”حمیدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے روز اول سے بلوچستان کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے ۔انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں حقوق کے لیے جو آواز بلند کی جا رہی ہے اسے طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کے بجائے حکومت کو بصیرت کا
مظاہرہ کرنا چاہیے ۔