کیا عدالت شہباز شریف کو نا اہل کر دے گی؟

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق حکومت کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کی عدم فراہمی کے بعد توہین عدالت کی تلوار لٹکنا شروع ہو گئی ہے تاہم یہ تلوار سیاسی طور پر کس کا سر قلم کرتی ہے قانونی ماہرین کے مطابق اس کا تعین آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ 11 اپریل کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ڈیڈ لائن کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت عظمی میں سیل بند لفافے میں رپورٹ جمع کروائی دی ہے کہ حکومت نے اسے پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں یا نہیں۔ تاہم حکومت نے ابھی تک انتخابات کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے اور اس کے بجائے الیکشن فنڈز کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے، بل کو ایک قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا اور اراکین اسمبلی جمعرات کو دوبارہ اجلاس طلب کرنے والے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق وزارتِ خزانہ کو پنجاب میں عام انتخابات کے لیے 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کا پابند کیا تھا مگر اسی تاریخ کو حکومت نے پارلیمنٹ میں الیکشن اخراجات بل منظوری کے لیے پیش کردیا جس کے بعد اب یہ اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے ہیں یا نہیں۔
الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ نے وزارتِ خزانہ کو پابند کیا تھا وہ الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز 10 اپریل تک فراہم کردے جبکہ الیکشن کمیشن سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس سے متعلق 11 اپریل کو رپورٹ دے۔الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے حکومت سے 21 ارب روپے کی فراہمی کا تقاضا کیا تھا تاہم ترجمان کے مطابق تاحال کمیشن کو فنڈز موصول نہیں ہوئے۔وزیرِ خزانہ نے فنڈز سے متعلق مشکلات پر کابینہ کو بریفنگ دی ہے جبکہ پارلیمنٹ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فنڈز کا معاملہ پارلیمان میں جانے کے بعد کیا عدالت حکومت کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے؟آئین کا آرٹیکل 69 پارلیمان کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔ جس کے مطابق پارلیمنٹ میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے قاسم سوری رولنگ کیس میں پارلیمان کی کارروائی کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان اکرام چوہدری نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے ساتھ آئین کا آرٹیکل 68 عدلیہ کو بھی استثنیٰ فراہم کرتا ہے جس کے مطابق پارلیمنٹ کے فلور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز سے متعلق کوئی بحث نہیں کی جاسکتی۔
اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی لیکن بنیادی طور پرپارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز آئین میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے لیکن پارلیمان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے‘۔
سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور کے مطابق حکومت اس فیصلے کو نہیں مان رہی اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن بالآخر یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور اس پر عمل کرنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے مطابق تیاریاں شروع کردی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’فنڈز کا معاملہ اگر پارلیمان جاتا بھی ہے تو پارلیمان فیصلے کو کالعدم نہیں کرسکتی اس لیے فیصلہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا تاہم حکومت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرے اور اس میں 3-4 سے فیصلے کے مطابق جو تنازع ہے اس کو بنیاد بناتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست کرے‘۔
تاہم سوال یہ بھی ہے کہ فنڈز کی عدم فراہمی کی صورت میں عدالت کیا کارروائی کرسکتی ہے؟سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان اکرام چوہدری کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت سیکرٹری خزانہ سے جواب طلب کرے گی اور مطمئن نہ ہونے کی صورت میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’عدالت کا یہ اختیار ہے کہ وہ سیکرٹری خزانہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجے اور اس پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ فنڈز کی فراہمی کی ہدایت کرے‘۔
کیا وفاقی حکومت کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ابتدائی مرحلے میں تو سیکرٹری خزانہ کو ہی نوٹس بھیجے گی اور اس نوٹس کے جواب کے مطابق ہی کارروائی کے بعد دیگر مرحلوں کا آغاز ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر سیکرٹری خزانہ ہی اس کی زد میں آئیں گے تاہم دوسرے مرحلے میں وزیرِ خزانہ اور وفاقی حکومت کے خلاف بھی سپریم کورٹ کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں سیکرٹری خزانہ کو فنڈز سے متعلق ہدایات دی ہیں اس لیے سیکرٹری خزانہ کو ہی ذاتی طور پر طلب کیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑنے پر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا دائرہ وسیع بھی کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت معاملہ بیس اپریل تک لے کر جاناچاہتی ہے کیونکہ اس وقت تک ازخود نوٹس سے متعلق قانون سازی موثر ہوجائے گی جبکہ دوسری جانب فنڈز جاری نہ ہونے پر سپریم کورٹ فوری طور پر وزیراعظم کو نااہل یا توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرے گی۔ تاہم سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ فنڈز جاری نہ کرنے پر سپریم کورٹ وزیراعظم شہباز شریف اور کابینہ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے، سپریم کورٹ فنڈز جاری نہ کرنے پر وزارت خزانہ سے وضاحت طلب کرسکتا ہے، وزارت خزانہ اگر کابینہ کے فیصلے کو عذر بناتی ہے تو وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ کے اندر جو ایشوز چل رہے ہیں اس کی وجہ سے ممکن ہے عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، حکومت واضح طور پر پنجاب میں الیکشن سے بچ رہی ہے، صورتحال جتنی خراب ہے اس سال پارلیمانی نظام جاتا ہوا لگ رہا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے عدالت کی جانب سے اس کی رٹ کو کمزور کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین میں صدر کے کردار کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کر دی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو خطوط لکھے تھے جس میں الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (1) اور 58 میں ترامیم کی تجویز دی گئی تھی۔اسی طرح کے خطوط پر الیکشن کمیشن کے سیکریٹری عمر حامد خان کے دستخط بھی تھے یہ خطوط وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری برائے پارلیمانی امور کو بھی بھیجے گئے تھے۔
مجوزہ ترامیم کے تحت الیکشن کمیشن کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر کسی بھی مرحلے پر انتخابی شیڈول کے اعلان اور اس میں ردوبدل کا اختیار واپس چاہتا ہے۔
ان خطوط میں کہا گیا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کے سیکشن 11 نے کمیشن کو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار دیا۔ ان میں سے ایک خط میں نشاندہی کی گئی کہ وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کی تحلیل یا مدت پوری ہونے پر قومی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کے لیے صدر کے کردار کی کوئی آئینی شق تائید نہیں کرتی۔
اس میں ذکر کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 224(2) کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ 90 دن کے اندر عام انتخابات کا انعقاد آئینی طور پر ضروری ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے نوٹ کیا کہ یکم مارچ اور 5 اپریل کے سپریم کورٹ کے فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو اس کے آئینی اختیارات سے محروم کر دیا ہے جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آیا ایک مقررہ وقت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے سازگار ماحول موجود ہے یا نہیں۔انہوں نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن کی رٹ کو کئی مواقع پر منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا اور عملی طور پر الیکشن کمیشن کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔