کیا ججز لگانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیئے یا ججز کے پاس؟
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ججز کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کا نمایاں کردار تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرری کے عمل میں اپنا دائرہ اختیار بڑھا کر عدلیہ کو سیاست زدہ کر دیا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف سیاسی جماعتیں اپنے منظور نظر افراد کو ججز تعینات کرنے میں کامیاب ہونگی بلکہ ججز کی تعیناتی میں سیاسی عمل دخل بڑھنے کے بعد سیاسی انتقامی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں تقرری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن 13 اراکین پر مشتمل ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔کمیشن میں سپریم کورٹ کے چارسنیئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سنیئر وکیل پاکستان بارکونسل، دواراکین اسمبلی اور دواراکین سینٹ شامل ہوں گے جو بالترتیب حکومت اوراپوزیشن سے لیے جائیں گے اور ان کی نامزدگی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈرکریں گے۔
ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 اے کی شق 3 اے کے تحت 12 اراکین پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے8، سینیٹ سے چار اراکین کو لیا جائے گا۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام اراکین سینیٹ سے ہوں گے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اراکین سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کریں گے۔
مبصرین کے مطابق جہاں ایک طرف آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اپوزیشن جماعتیں اتحادی حکومت کو ہدف تنقید بنارہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا استدلال ہے کہ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں ججز کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی۔
تاہم تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری دنیا بھر کے مختلف نظاموں میں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے جبکہ قومی پارلیمان، بادشاہ، صدور اور وزیر اعظم اس تناظر میں ججز کی تعیناتی کی حتمی منظوری دیتے ہیں۔
وہ ممالک جہاں عدالتی تقرریوں کے سلسلے میں قومی پارلیمان، بادشاہ، صدور اور سربراہان حکومت کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے ان میں ارجنٹائن، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، بھارت میں ججز کی تقرری کیلئے صدر چیف جسٹس کی رضامندی سے ثالث مقرر کرتے ہیں جو نئے ججز کی تعیناتی بارے حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ جبکہ فرانس، کینیڈا، جمہوریہ چیک، ہنگری، ڈنمارک، البانیہ، اسرائیل، جرمنی میں فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے ججوں کا انتخاب ججز الیکشن کمیٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں 16 وفاقی ریاستوں میں سے ہر ایک کے جسٹس، سیکرٹریز اور وفاقی پارلیمنٹ کے ذریعے مقرر کردہ 16 ممبران ہوتے ہیں؛ جو ججز کی تقرری کا فیصلہ کرتے ہیں جبکہ ججز کے تقرر کی حتمی منظوری صدر دیتے ہیں۔
میکسیکو، بیلجیم، بلغاریہ، کروشیا میں سپریم کورٹ کے صدر کو کروشیا کے صدر اور سپریم کورٹ کے دیگر ججز باہمی مشاورت سے نیشنل جوڈیشل کونسل کے ذریعے مقرر کرتے ہیں، جبکہ کیوبا، ایسٹونیا، جارجیا، ناروے، پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیہ، سویڈن، نمیبیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، برازیل، برونائی، پاکستان، روس، جنوبی افریقہ، برطانیہ، قبرص، امریکہ میں وفاقی ججوں کا تقرر صدر کرتے ہیں۔
الجزائر، زمبابوے، ایل سلواڈور، انگولا، آرمینیا، آسٹریا، مالٹا، موناکو، لکسمبرگ، ملائیشیا، مراکش، ایسٹونیا، اردن، برٹش ورجن آئی لینڈ، جاپان میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری حکومت کرتی ہے، لیکن ہر 10 سال بعد ایک مقبول ریفرنڈم میں ان ججز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
فن لینڈ، یونان، ہانگ کانگ، آئرلینڈ، لٹویا، لتھوانیا، اینٹیگوا اور باربوڈا، بہاماس، بحرین، بنگلہ دیش، چاڈ، برمودا، بھوٹان، جنوبی کوریا، چلی، ڈومینیکن ریپبلک مین سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے ججوں کا تقرر عدلیہ کی قومی کونسل کرتی ہے جس میں صدر خود، کانگریس کے دونوں ایوانوں کے رہنما، سپریم کورٹ کے صدر، اور ایک غیر حکومتی پارٹی کانگریس کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔
ایران میں سپریم کورٹ کے صدر کا تقرر ہائی جوڈیشل کونسل، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، پراسیکیوٹر جنرل اور 3 پادریوں پر مشتمل ایک 5 رکنی ادارہ، کا سربراہ کرتا ہے۔ عراق میں وفاقی سپریم کورٹ کے ججوں کو ہائی جوڈیشل کونسل کے صدر، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کے سربراہ، اور عدالتی نگرانی کمیشن کے سربراہ کے ذریعے نامزد کیا جاتا ہے۔ چین میں چیف جسٹس کی تقرری پیپلز نیشنل کانگریس کرتی ہے۔
دنیا کے کچھ ممالک اپنے ججوں کے انتخاب کے لیے جج اسکولوں، امتحانات اور تربیتی پروگرام کی کچھ شکلیں بھی استعمال کرتے ہیں ان میں آسٹریا، بنگلہ دیش، مصر، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، نیپال، نیدرلینڈز، سنگاپور، اسپین، پرتگال، سویڈن، البانیہ، بیلجیم، کروشیا، ایسٹونیا، جارجیا، پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا وغیرہ شامل ہیں ۔ اٹلی میں سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر جمہوریہ کے صدر کی سربراہی میں عدلیہ کی ہائی کونسل کرتی ہے۔ یورپی یونین میں ججوں کا تقرر رکن ممالک کی مشترکہ رضامندی سے 6 سالہ قابل تجدید شرائط کے لیے کیا جاتا ہے۔ بلغاریہ میں ججوں کا انتخاب سپریم جوڈیشل کونسل اور صدر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں سپریم کورٹ کے ججوں کا انتخاب عدالت کے ارکان امیدواروں کی فہرست سے کرتے ہیں۔ فی الحال بولیویا واحد ملک ہے جو مقبول ووٹ کے ذریعے اپنے ججوں کی اکثریت کا انتخاب کرتا ہے، اور یہ عمل 2009 میں نئے آئین کی توثیق کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔ سوئٹزرلینڈ میں وفاقی ججوں کا انتخاب پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔