سکھ رہنما کا قتل، بھارت اور کینیڈاآمنے سامنے آ گئے

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنما کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرنے کے بعد شروع ہونے والا سفارتی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزام پر امریکا ، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے ،تینوں ممالک نے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں کہا ہے کہ وہ ا ن سنجیدہ الزامات کے معاملہ پر کینیڈین حکومت کیساتھ رابطے میں ہیں اور اوٹاوا حکومت کی جانب سے معاملہ کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔

انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ایک کینیڈین سکھ رہنما کے قتل کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اہم سفارتی اہلکاروں کو بھی ملک بدر کردیا ہے۔ دوسری جانب کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے اس قتل میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کو نئی دہلی نے ’مضحکہ خیز‘ قرار دے کر اس کی تردید کردی ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ممالک میں کشیدگی کا آغاز جی ٹوئنٹی اجلاس سے ہوا جہاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹسن ٹروڈو کے درمیان کینیڈا میں سکھوں کے بھارت مخالف احتجاج کو لے گرما گرمی ہو گئی تھی۔

خیال رہے کہ سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ’خالصتان‘ کے قیام کے لیے سرگرم ہردیپ سنگھ نجر کو رواں برس جون میں کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا۔ کینیڈین سیکیورٹی ادارے گزشتہ کئی ماہ سے اس قتل کی تحقیقات کر رہے تھے۔ تاہم سوموار 18 ستمبر کو کینیڈا کے وزیراعظم جسٹسن ٹروڈو نے کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارتی حکومت ملوث ہے۔ کینیڈا کے انٹیلیجنس اداروں نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجار کی موت اور انڈین ریاست کے درمیان ایک ’قابل اعتماد‘ تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ سکھ رہنما کی ہلاکت کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ اس معاملے پر انڈیا کو اکسا نہیں رہے ہیں بلکہ ہردیب سنگھ نجر کے قتل پر جواب مانگ رہے ہیں۔کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔‘ بین الاقوامی قانون میں اس کیس کے بڑے دور رس نتائج ہوں گے۔

کینیڈا نے بھارت پر سکھ شہری کے قتل کا الزام عائد کرنے کے بعد کینیڈا میں بھارتی سفیر اور انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے چیف کو ملک بدر کرتے ہوئے اس پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں کردار کا الزام عائد کردیا ہے جس کے بعد بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔دوسری طرف نے بھی کینیڈا کے سینئر سفارتکار کو 5 روز کے اندر ملک چھوڑنے کے نوٹس کے ساتھ ملک بدر کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ خالصتان تحریک ایک آزاد سکھ ریاست کے لیے جدوجہد کی تحریک ہے۔ الگ سکھ ریاست کا خیال بھارت اور پاکستان کے درمیان پنجاب کے علاقے کی تقسیم سے قبل ہونے والے مذاکرات میں پیش کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سکھ مذہب کی بنیاد پنجاب میں 15ویں صدی کے آخر میں رکھی گئی تھی اور اس وقت دنیا بھر میں اس کے تقریباً2 کروڑ 50 لاکھ پیروکار ہیں، سکھ پنجاب کی آبادی کی اکثریت لیکن بھارت میں اقلیت ہیں، جو بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کا دو فیصد ہیں۔سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن خالصتان کو پنجاب سے الگ بنایا جائے۔ یہ مطالبہ ماضی میں بھی کئی بار سامنے آتا رہا ہے، خالصتان تحریک کو بھارتی حکومت اپنے لیے سیکیورٹی خطرہ سمجھتی ہے۔اگرچہ خالصتان تحریک کو اب بھارت میں بہت کم حمایت حاصل ہے لیکن اس کی حمایت کینیڈا میں سکھ اکثریتی علاقوں میں ہے جہاں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے جبکہ برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکا میں بھی ان کی کثیر آبادی موجود ہے۔انڈیا کے علاوہ سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں مقیم ہے۔

کینیڈا اور انڈیا کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی بارے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن پاکستان اپنے بے شمار اندرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت ایک بڑی معیشت ہے اور وہ اس مسئلے کو سلجھا لے گا۔ جب نریندر مودی کو یورپ اور امریکا نے بلیک لسٹ کیا ہوا تھا تو پاکستان میں کچھ لوگ اس پر بہت بات کرتے تھے لیکن اس کے بعد نریندر مودی نے امریکا اور یورپ کے کامیاب دورے کیے۔بھارت کینیڈا تنازع پر بات کرتے ہوئے شمشاد احمد نے کہاکہ اس طرح کے واقعات کے بہت دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ سکھ ہندوستان میں اپنی خود مختاری کی جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارت میں کوئی اقلیت بھی محفوظ نہیں۔ مسلمانوں کو بھارت میں بہت بے دردی سے مارا گیا ہے لیکن سکھ ایک نسبتاً بڑی قوت ہیں۔ لگتا ہے کہ را کی کارروائی بھارت کے گلے پڑنے والی ہے۔

Back to top button