جسٹس مظاہر نقوی کی چھٹی کے دن قریب کیسے آ گئے؟

سپریم کورٹ کے ٹرک والے جج کہلانے والے جسٹس مظاہر نقوی کی چھٹی یقینی ہو گئی۔ کرپشن الزامات پر جسٹس مظاہر نقوی مشکل میں پھنستے نظر آتے ہیں سینئر صحافی مزمل سہروردی کے مطابق آئندہ دس سے پندرہ دنوں میں جسٹس نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوگا، جس میں پانچ میں سے تین جج ان کے خلاف ووٹ دیں گے اور مس کنڈکٹ پر ان کی سپریم کورٹ سے چھٹی ہو جائے گی۔ تاہم فوری طور پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔مزمل سہروردی کے مطابق جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنسز کے نتائج سامنے آئیں گے۔ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس سردار طارق مسعود جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ووٹ دیں گے۔
خیال رہے کہ دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے ججزکے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کرنے والے اعلیٰ اختیاراتی ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر سینئرترین جج جسٹس سردار طارق مسعود نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہرعلی نقوی کے خلاف دائر 10 ریفرنسزپراپنی قانونی رائے دے دی ہے۔ یہ ریفرنسز سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے سپریم جوڈیشل کونسل کوارسال کیے تھے اور کونسل نے پھریہ ریفرنسزقانونی رائے حاصل کرنے کے لیے جسٹس سردار طارق مسعود کوبھجوادیے تھے جنھوں نے 25 ستمبرو کواس پر قانونی رائے دے دی ہے۔ ذرائع کاکہناہے کہ اس قانونی رائے کے تحت ہی جسٹس مظاہرعلی نقوی کے خلاف دائر ریفرنسزمیں مزید کارروائی کرنے یانہ کرنے بارے فیصلہ کیاجائیگا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جسٹس طارق مسعودسابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال ،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عائشہ ملک کے خلاف دائر ریفرنسزپر بھی قانونی رائے دیتے ہوئے انھیں مستردکرچکے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی کے دورمیں جہاں مقدمات جلدنمٹانے کاکام جاری ہے ،وہاں سماعت میں تاخیر کاباعث بننے والے وکلاء کوجرمانے بھی کیے جارہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم ترین کام اعلٰی عدلیہ کے ججزکے احتساب کے لیے بھی کیاجارہاہے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اس سلسلے میں درج کرائی گئی شکایات کوجانچاجارہاہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے ٹرک والے جج کہلانے والے جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور مبینہ مالی بدعنوانی سے متعلق متعدد شکایات درج ہیں۔ تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال ان شکایات پر کارروائی سے مسلسل گریزاں تھے اور انھوں نے تمام تر کرپشن پر پردہ ڈال رکھا تھا اور وہ آخری وقت تک جسٹس مظاہر نقوی کو مکمل تحفظ فراہم کرتےرہے جبکہ جستس بندیال نے انھیں ریلیف کی فراہمی کیلئے جسٹس سردار طارق مسعود کو دھمکی آمیز فون بھی کیا تھا تاہم جسٹس طارق مسعود نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود اِس وقت چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج ہیں اور 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن ہیں۔
واضح رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات مسلم لیگ (ن) لائرز فورم، پاکستان بار کونسل، سندھ بار کونسل، لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل ایڈووکیٹ میاں داؤد اور ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ خان سمیت دیگر نے دائر کی ہیں۔ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالت عظمیٰ کے ایک اور جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر غور کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط بھی لکھا تھا۔اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف دائر متعدد شکایات پر جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی