حکومت نے پٹرول چھڑک کر اپنے اقتدار کو آگ کیسے لگائی؟

آئی ایم ایف کے معاہدے کی پابندی ،عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی کمزورقدربھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافے کا سبب ہے۔معاشی ماہرین اورتجزیہ کاروں کے مطابق جب تک ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئے گی اورایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوگا ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا امکان نہیں ۔
خیال رہے کہ حکومت نے منگل کو ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سات فی صد سے زائد کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں پیٹرول کی نئی قیمت 253 روپے سے بڑھ کر 273 روپے تک جا پہنچی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت بھی 254 سے بڑھ کر 274 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عوامی حلقوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے یکسر مسترد کردیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مختلف تاجرتنظیموں نے بھی شدیدردعمل دیتے ہوئے اسے عوام دشمن اقدام قرار دیا۔اس ضمن میں سب سے زیادہ بحث مباحثہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر دیکھنے میں آیا۔ ٹوئٹر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اسے حکومت کی جانب سے پہلے ہی غربت اور مہنگائی کے شکار عوام پر معاشی تشدد قرار دیا۔
معروف صحافی حامد میر نے پٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں اضافے کی خبر کو اپنے اس تبصرے کے ساتھ ری ٹویٹ کیا، ”یہ کام جانے والی حکومت تو نہیں کرتی‘‘ ان کا اشارہ چند روز میں موجودہ حکومت کی مدت کے خاتمے اور آئندہ انتخابات سے قبل نگران سیٹ اپ لائے جانے کی جانب تھا۔
معاشی تجزیہ کاراورسینیرصحافی حارث ضمیر کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا،”حکومت کی جانب سے بلند شرح سود کے معیشت پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ایسے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اشیائےخوردونوش سمیت ہر چیز مہنگی ہونے کا سبب بنے گا۔‘‘
حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 20 روپے فی لیٹر کا اضافہ عوام کے لیے بڑا جھٹکا ثابت ہوا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر جہاں صارفین مہنگائی کا رونا روتے نظر آئے وہیں اس فیصلے کے ممکنہ معاشی اور سیاسی اثرات بھی موضوعِ بحث ہیں۔ڈاکٹر منصور کلاسرا نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’حکومت کو بولیں روز روز بجلی پیٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر ہمیں سسک سسک کر مارنے کے بجائے ایک ہی دفعہ زہر کے ٹیکے لگا دیں۔‘خیبرپختونخوا کی صوبائی اسبملی کے رُکن اختیار ولی نے لکھا کہ ’حکومت کی آئی ایم ایف کے ہاتھوں مجبوری اپنی جگہ لیکن مہنگے پیٹرول کو سستا نہیں کہہ سکتے۔
ٹوئٹر صارف صائقہ خان نے لکھا کہ ’حکومت چاہتی تو کل رات کو قیمتیں بڑھا سکتی تھی لیکن بڑے میاں صاحب کو عوام کی بہت فکر تھی، انہوں نے کہا کہ اگر رات کو اعلان کیا تولوگ سوئیں گے کیسے؟ پھر فیصلہ کیا گیا جب صبح چار بجے سونے والے بھی نیند پوری کر کے جاگ جائیں تو اعلان کیا جائے، اس احساس کا شکریہ میاں صاحب!
اظہر محمد خان نامی صارف نے طنز کیا کہ اگر حکومت چاہتی تو پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے کا اضافہ بھی کر سکتی تھی مگر صرف غریبوں کے احساس کی وجہ سے سے ایسا نہیں کیا۔ حکومت کا شکریہ تو بنتا ہے۔
آمنہ زبیر نامی ٹوئٹر صارف نے سائیکل پر بیٹھنے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’کہا تھا سب کو کہ سائیکل چلانا سیکھ لیں پرنہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں 20 روپے اضافہ۔ گُڈ گورننس کے دور میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘ایک اور صارف آر اے شہزاد نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’پیٹرول کی قیمت میں 19.95 روپے اضافہ، ڈیزل کی قیمت میں 19.90 روپے اضافہ، حکومت ختم ہونے میں ہفتہ رہ گیا ہے اور آپ الیکشن میں جانے کی تیاری چیک کیجیے۔بروکن نیوز نامی پیروڈی اکاؤںٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف سے فرضی بیان منسوب کرتے ہوئے لکھا کہ ’صرف سٹاک ایکسچینج اوپر لے جانے والی حکومت ہماری ہے، پیٹرول مہنگا کرنے والی حکومت ہماری نہیں ہے۔ٹوئٹر صارف شہباز مروت نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’روس کا سستا پیٹرول پتہ نہیں کون پی گیا۔
ملک اجمل نامی ٹوئٹر صارف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’ڈار صاحب نے نگران وزیراعظم نہ بنائے جانے کا بدلہ غریب عوام سے لے لیا۔ جاتے جاتے ایک بار پھر عوام کو مہنگائی، بےروزگاری اور افلاس کے جہنم میں پھینک گئے۔ ملکی معیشت پر آپ کے ڈرون حملے لوگوں سے جینے کا حوصلہ چھین رہے ہیں۔ بس کر دیں خدارا۔۔تنویر عباس نے لکھا کہ ’مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ متوسط اور غریب طبقے کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں کو جواز بنا کر عوام کی کھال اتاری
کترینہ، ایشوریہ، کرینہ اور عالیہ بھی ’باربی‘ بن گئیں
جا رہی ہے۔