اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ عمران کو کتنا بھاری پڑے گا؟

اپوزیشن کے ہاتھوں فارغ ہونے والے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ انہیں بہر صورت مہنگا پڑے گا کیونکہ اس سے انکی پارٹی کے اندر اختلافات شدید تر ہونے اور
تحریک انصاف کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق 11 اپریل کو عمران خان نے وزارت عظمی کے الیکشن سے پہلے قومی اسمبلی میں اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور اعلان کیا کہ اگر ان کا ایک بھی ساتھی استعفی نہ دے تب بھی وہ اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یہ موقف تب اپنانا پڑا جب پارلیمانی پارٹی کے زیادہ دن اراکین قومی اسمبلی نے استعفوں کی تجویز کی مخالفت کی۔ لیکن عمران خان نے اپنے ساتھیوں کا فیصلہ ویٹو کرتے ہوئے نہ صرف استعفے دینے کا اعلان کیا بلکہ یہ اعلان بھی کر دیا کہ انکی جماعت وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے گی۔
یہ اعلان کرنے کے بعد عمران قومی اسمبلی سے دوبارہ بنی گالہ کی جانب روانہ ہو گے اور وزارت عظمی کے امیدوار شاہ محمود قریشی ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور وزارت عظمی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
عمران خان کے علاوہ تین سابق وفاقی وزراء شیخ رشید احمد، فواد چوہدری اور مراد سعید فوری استعفے دینے کے حق میں تھے جبکہ زیادہ تر اراکین اسمبلی اسکے مخالف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کا حصہ رہتے ہوئے مخالفین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ استعفے کی تجویز کے مخالفین نے یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ ماضی میں نواز شریف کے دور حکومت میں بھی پی ٹی آئی اراکین نے اسمبلیوں سے استعفے دیئے تھے لیکن پھر واپس لینا پڑے۔ لیکن عمران خان کا موقف تھا کہ تب پی ٹی آئی کے پاس صرف تیس کے قریب نشستیں تھیں جبکہ موجودہ قومی اسمبلی میں اس کے ڈیڑھ سو اراکین ہیں لہذا اتنی بڑی تعداد میں استعفوں کے بعد حکومت گر جائے گی۔
بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کی تجویز بنیادی طور پر عمران خان کی اپنی تھی اور شیخ رشید، فواد چوہدری اور مراد سعید کو بھی انہوں نے ہی آگے لگایا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ استعفوں کے بعد نئی حکومت کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا اور وہ جلد الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔
دوسری جانب شہباز شریف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے استعفے دینے کی غلطی کی تو اسے بھگتنا پڑ جائے گی چونکہ پی ٹی آئی کے آدھے سے زائد اراکین اسمبلی یہ کام نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اگر پھر بھی کوئی رکن اسمبلی اپنی نشست سے مستعفی ہو گا تو اسکے حلقے میں ضمنی الیکشن کروا دیا جائے گا۔ ایسے میں تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے دوبارہ اسی نشست پر الیکشن لڑنا ایک سوال ہو گا کیونکہ عمران خان تو نئے الیکشن چاہتے ہیں لہذا پی ٹی آئی کا امیدوار میدان میں موجود نہ ہوا تو مخالف امیدوار کے لئے جیتنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اس سے پہلے 5 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں صرف 98 لوگوں نے شرکت کی تھی جن میں سے 72 نے استعفوں کی مخالفت کی۔ ایسے میں اگر استعفوں کے فیصلے پر قائم رہا جاتا ہے تو پارٹی ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔
حکمران جماعت کے 22 اراکین قومی اسمبلی پہلے ہی اپوزیشن سے ہاتھ ملا چکے ہیں اور استعفوں پر اصرار کے نتیجے میں چار درجن سے زائد مذید پی ٹی آئی ممبران ان کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنا علیحدہ دھڑا تشکیل دے سکتے ہیں جس پر فلور کراسنگ کے قانون کا بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ ایسے میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا دھڑا قومی اسمبلی میں سرکاری اپوزیشن کا درجہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے استعفوں کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر اراکین اسمبلی کا یہ موقف ہے کہ اس سے نئی حکومت کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، انکا کہنا ہے کہ استعفوں کی صورت میں تو انکے مخالفین کے لیے اور بھی زیادہ آسانی پیدا ہو جائے گی۔ دوسری جانب استعفوں کا کارڈ استعمال کرنے سے عمران خان اپنی پارٹی کے اندر بھی تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے زیادہ تر ساتھیوں میں ایسے رکھیں نےاسمبلی شامل ہیں جو ماضی میں دوسری جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے رہے ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت بھی اسی لیے اختیار کی تھی کہ اسکا اقتدار میں آنا طے ہو چکا تھا۔
تاہم شیخ رشید اور فواد چوہدری جیسے عمران کے ساتھیوں کا یہ موقف ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے 60 یا 70 اراکین بھی استعفیٰ دے دیں تو حکومت گرانے کا انکا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران کو بھی معلوم ہے کہ ان کے سارے ساتھی استعفے نہیں دیں گے لیکن وہ پھر بھی استعفی کارڈ استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں اس سے ہونے والے نقصان کا بھی صحیح ادراک نہیں ہے۔
دوسری جانب سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ اگر عمران نے واقعی استعفوں کا کارڈ کھیل دیا تو اس سے نئی حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ ان کے مطابق حکومتی اتحاد کم از کم ایک درجن سیاسی جماعتوں پر مبنی ہے لہذا سو سے زائد سیٹوں پر ضمنی الیکشن کی صورت میں تمام جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے کرینگی جس سے حکومتی اتحاد میں دراڑ پڑ جائے گی۔
لیکن سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اجتماعی استعفوں سے پی ٹی آئی کو زیادہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوسکتا ہے۔ انکے مطابق اگر عمران کے ساتھی استعفے دے بھی دیں تو پارلیمنٹ چلتی رہے گی اور نئی حکومت ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے نظام چلا لے گی۔ ایسے میں نئی حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی بھی کر لے گی اور اس کی اسمبلی میں اپوزیشن سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ عمران کے مخالفین نے ان کو نکالنے کے لیے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کیا ہے اور انہیں آئینی طریقے سے بے دخل کیا ہے لہذا عمران خان کو بھی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انکے خیال میں پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے کیونکہ عمران خان کا اینٹی امریکہ چورن اب بکنے والا نہیں اور نہ ہی پاکستان میں اینٹی امریکہ انقلاب آسکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سٹریٹجک مفادات بھی امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور شاید اسی لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران کے بیرونی سازش کے نظریے کی حمایت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران نے استعفوں سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی کو مزید واضح کر دے گا۔ سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کے سپورٹرز نے اتوار کے روز ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں آرمی چیف کے حوالے سے جو نازیبا زبان استعمال کی ہے اس کے بعد ان کا سیاسی مستقبل ویسے بھی تاریک ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اس لیے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ اجتماعی استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے احمقانہ پالیسی ہوگی اور یہ اپوزیشن کو واک اوور دینے کے مترادف ہوگا۔ ان کے خیال میں اگر عمران خان قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا حتمی فیصلہ کر لیتے ہیں تو زیادہ تر اراکین اسمبلی منحرف اراکین کے ساتھ جا ملیں گے کیونکہ بار بار الیکشن میں حصہ لینا اور جیتنا آسان نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کے مطابق اگر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی استعفی دے دیتے ہیں تو حکومت ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر سکتی ہے، ایسے میں استعفیٰ دینے والوں کو کوئی فائدہ تو نہیں ہو گا البتہ نقصان ضرور ہو گا۔ لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن 100 کے قریب حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن مرحلہ وار گروپوں کی شکل میں 50، 60 حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی منحرف اراکین کا ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا اعلان
اس کام کے لیے اس کے پاس فنڈز اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے اضافی گرانٹ بھی مل سکتی ہے کیونکہ اسے وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کی نوبت مشکل ہی آئے گی کیونکہ اپوزیشن وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد اپنا سپیکر لائے گی اور نیا سپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے عمل کو طول دے سکتا ہے جیسا کہ 2014 میں ایاز صادق نے کیا تھا، جب انہوں نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔
کنور دلشاد کے مطابق سپیکر کہہ سکتا ہے کہ تمام ارکان سے استعفوں کی ایک ایک کر کے تصدیق کرنی ہے پھر ان کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے عمل کو طول دیا جاسکتا ہے۔ لہذا عمران کی جانب سے استعفوں کی آپشن پر عمل درآمد کے باوجود انہیں وہ سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہو گا جس کی وہ امید کر رہے ہیں۔
How heavy will Imran’s decision to resign from assembly be? video