عمران خان کو دوبارہ اقتدار ملنا نا ممکن کیوں ہے؟

عمران خان اپنے متکبرانہ روپے کی وجہ سے اقتدار کی دیوی کو ٹھکرانے لے بعد اب در در دوبارہ اقتدار کی بھیک مانگنے میں مصروف ہیں تاہم ابھی تک ایوان انصاف کے علاوہ انھیں کہیں سے مثبت خبر سنائی نہیں دیتی کیونکہ ماضی میں وہ اپنے پاگل پن اور محسن کش روپے کی وجہ سے اپنے لانے والوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے قبل عمران خان آرمی چیف کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرچکے تھے، وہ فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں یومِ خواتین پر خطاب کے بعد سیدھے جی ایچ کیو گئے تھے، جہاں معاملات نہ بنے اور ان کی 15 سیکنڈ کی ایک کال ٹریس کی گئی جس میں وہ ایک شخصیت کو برطرف کرنے کے لیے سمری تیار کرنے کا حکم دے رہے تھے۔
عمران خان چاہتے تو تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا سکتے تھے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر یا اپنے غرور کے سامنے سرنڈر کرنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ جس کے بعد عمران خان نےشہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے سمیت جتنے بھی بڑے سیاسی فیصلے کیے اس کا بعد میں نقصان ہی ہوا ہے، اب جب گیم الٹی ہوگئی ہے تو ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہا۔
ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال پہلے 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب تھی کہ جب غیر معمولی طور پر سپریم کورٹ کے تمام دفاتر کی لائٹیں آن ہوگئی تھیں اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جج صاحبان سپریم کورٹ پہنچ چکے تھے۔ جب قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھنے لگی اور یہ صاحبان واپس اپنی رہائش گاہوں کی طرف روانہ ہوئے تو قومی اسمبلی اجلاس میں شریک قائدین ان کے شکر گزار نظر آئے اور یوں عمران خان کا دورِ حکومت انجام کو پہنچا۔یہ سب کچھ عمران خان کے سیاسی عدم تدبر کے باعث ہورہا تھا، ان کی مٹھی سے اقتدار کی ریت نکل چکی تھی، اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ’گیم از اوور‘۔
تاہم ان حالات سے چند ماہ پہلے تک پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس عروج پر تھا، عمران خان کے سیاسی بیانات میں وہی چور اور ڈاکو کا تذکرہ تھا، کوئی وزیر اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپوزیشن کو کہا کرتا تھا کہ ’بس نہیں چلتا، ورنہ ان کو تو ڈی چوک پر لٹکا دیا جائے‘ نیب کی کارروائیاں عروج پر تھیں، تاہم 20 ستمبر 2020ء کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں پی ڈی ایم نے جنم لیا اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں عمران خان حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان کو اس نئے سیاسی محاذ کی کوئی زیادہ پریشانی نہیں تھی، وہ اسٹیبلشمنٹ کے آہنی خیمے میں محفوظ بیٹھے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا محاذ بھی انہوں نے اسٹیبشلمنٹ کے حوالے کردیا تھا، کسی اہم قانون سازی یا بجٹ منظوری کے وقت ارکان کو اکٹھا کرنے کا کام بھی اس کے حوالے تھا، ایسے میں جن ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر وہ وزیراعظم بنے تھے ان میں سے بیشتر کو اہمیت دینے کی انہوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی۔
عمران خان کی پالیسیوں نے ایک طرف اپوزیشن کو متحد کیا تو دوسری جانب ان کے اتحادیوں کی بیزاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا، مارچ 2022ء میں اچانک صورتحال تبدیل ہوگئی، 8 مارچ 2022ء کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا لانگ مارچ اسلام آباد میں پہنچ چکا تھا، شام کو ڈی چوک پر بلاول بھٹو زرداری نے لانگ مارچ سے اختتامی خطاب کرنا تھا، لیکن اچانک مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچ گئے اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی۔
دریں اثناء عمران خان آرمی چیف جنرل باجوہ کی برطرفی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ تاہم تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد عمران خان وزیراعظم کی حیثیت میں اب اس طرح کا کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آرمی چیف کو بچایا جائے۔ پھر گیم تبدیل ہوئی۔ عمران خان نے سائفر سے معاملہ شروع کیا اور اسے استعمال کرکے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی ایک بے ڈھنگی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔
جس وقت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنی نشست پر بیٹھ کر مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے تھے اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا عملہ اپنے اپنے دفاتر میں پہنچ چکا تھا، شاہراہ دستور پر قیدی وین تک پہنچادی گئی، ٹی وی چینلز کو ’ذرائع‘ سے یہ خبر دی گئی کہ ہوائی اڈوں اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
عمران خان چاہتے تو تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا سکتے تھے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر یا اپنے غرور کے سامنے سرنڈر کرنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا اور بالآخر وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اقتدار سے بے دخل کر دئیے گئے۔ شہباز حکومت اقتدار میں آ گئی تاہم گزشتہ ایک سال سے قومی اسمبلی کور کرنے والے رپورٹرز کی یہ رائے ہے کہ اس ایوان میں کور کرنے کے لیے اب کچھ بھی باقی نہیں رہا، کوئی اپوزیشن تو دور کی بات، اپوزیشن لیڈر کی تقاریر سنیں تو لگتا ہے اپوزیشن لیڈر نہیں حکومت کا نمائندہ بول رہا ہے۔اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باعث حکومت کافی خوش بھی ہے، کیونکہ وہ جو بھی قانون سازی کرتی رہی ہے اسے کوئی چیلنج کرنے والا یا اس پر بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو یک طرفہ کارروائی چل رہی ہے۔
اتحادی حکومت کے بہت سارے رہنما اب بھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو اپنی قیادت کو کہا تھا کہ عمران 6 ماہ کے اندر سیاسی طور پر ڈوب جائیں گے، تحریک عدم اعتماد انہیں مزید پاپولر کردے گی، دوسری جانب مریم نواز سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ کیا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اتحادی جماعتوں کی سیاسی خود کشی نہیں تھی؟ اس پر انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا کہ ’نہیں، ہمارا فیصلہ درست تھا، 12 سال کا پلان بن چکا تھا، اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو کسی کے پلے کچھ نہ رہتا۔
تاہم حکومت کی تبدیلی کو ایک سال گزرنے کے بعد حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں سنجیدگی کے ساتھ دیگر نئے قوانین لانے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف سیاسی آئینی اور اقتصادی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے اور کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔سیاسی منظرنامے میں سب سے بڑا خلا یہ ہے کہ ایسا کوئی سیاسی لیڈر موجود نہیں جو عمران خان، حکمران اتحاد، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان کوئی کردار ادا کرکے ملک کو بحران سے نکال سکے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا پڑے گا، لیکن فی الوقت اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ 3 دہائیوں تک قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت میں رہنے والے ایک سینیئر سیاسی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ملک بند گلی میں چلا گیا ہے، ہمیں بھی معلوم نہیں کہ اسے واپس کون لائے گا‘؟