آئندہ انتخابات میں عمران خان کی واپسی ناممکن کیوں؟
الیکشن سے قبل عدلیہ کی جانب سے ریلیف کی فراہمی پر مبنی چند فیصلوں کے بعد تحریک انصاف نے ایک بار پھر اقتدار کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے ہیں۔ تاہم جہاں زمینی حالات پی ٹی آئی کے خلاف دکھائی دیتے ہیں وہیں مغربی میڈیا کے دعوؤں کے مطابق آئندہ الیکشن میں نون لیگ کی فتح اور تحریک انصاف کی شکست یقینی ہے۔ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ہارنے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے زیر قیادت انتخابی اتحاد کے جیتنے کی توقع ظاہر کی ہے۔جریدے کے ’اکنامسٹ انٹیلیجینس یونٹ‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حزب اختلاف کی پی ٹی آئی الیکشن ہار جائے گی اور ملک میں مظاہروں میں شدت آئے گی لیکن فوج کی جانب سے ان پر تیزی سے قابو پا لیا جائے گا۔
کنزیومر کنفیڈنس سروے کی طرف سے پیش کردہ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کے آغاز میں سیاسی خلل اندازیوں کے باوجود پاکستان بڑھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوگا۔ سروے کے نتائج سے انکشاف ہوا ہے کہ حیران کن طور پر 94 فیصد جواب دہندگان کا خیال تھا کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیاسی استحکام اور سلامتی کمزور ہے اور حقیقی جی ڈی پی رواں مالی سال میں ہلکی سکڑے گی تاہم آئی ایم ایف کے قرضے کے سبب ملک دیوالیہ ہونے سے بچا رہے گا۔
چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ چین پاکستان کا ایک بڑا اسٹریٹجک اور مالیاتی اتحادی رہے گا جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیں گے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مئی کا مہینہ اپنے چیلنجوں کا ایک مجموعہ لے کر آیا کیونکہ وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھا۔ تاہم پاکستان کے ریاستی اداروں نے اس پر تیزی سے قابو پا لیا اور استحکام کو فروغ دیا۔مئی کے بعد معاشی افق پر امید کی کرن نظر آئی۔ جولائی میں طویل انتظار کے بعد آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے پر بالآخر دستخط ہوئے جو پاکستان کی مشکلات میں گھری معیشت کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا اور اس سے ایک ممکنہ تبدیلی کا آغاز ہوا۔پاکستان نے جولائی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کرکے امید کو مزید تقویت دی۔ اس اقدام نے اہم شعبوں جیسے کہ آئی ٹی، توانائی، کان کنی، زراعت اور دفاعی برآمدات میں ترقی اور ترقی کے لیے ایک راستے کا اشارہ کیا۔ اس پیش رفت نے صارفین کے اعتماد میں نمایاں اضافہ کیا۔ سروے میں 16 فیصد صارفین نے مثبت جذبات کا اظہار کیا۔
دوسری جانب امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو ناکام آئیڈیاز کا حامل اور قیادت کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان دوبارہ کسی طرح پاکستان کے دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو وہ ملک کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔اخبار نے لکھا کہ پاکستان بڑھتی ہوئی دہشت گردی، کم ہوتی فی کس آمدنی اور 30 فیصد افراط زر کا شکار ہے اور ایسے میں پاکستان کو ناکام آئیڈیاز کے حامل کرشماتی لیڈر کے بجائے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق عمران خان کے پاس امریکا کی مخالفت، اسلام ازم اور بائیں بازو کے پرانے معاشی خیالات کے سوا کچھ نہیں جبکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بھارت کے ساتھ امن میں ہے۔پاکستان کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کا قرض چاہیے اور امریکا آئی ایم ایف کا اہم رکن ہے، بانی پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو امریکا سے پاکستان کے تعلقات خراب کر لیں گے۔اخبار کے مطابق پاکستانیوں کو غربت سے نکالنا ہے تو اس کے لیے عمران خان ہرگز موزوں نہیں تاہم ان کے
الیکشن لڑنے کے امکانات کم ہیں۔