عمران کی سزاؤں پر دبکے یوتھئے ووٹ ڈالنے بھی نہیں نکلیں گے؟

بانی تحریک انصاف عمران خان کو اب تک تین دنوں میں تین مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ملک میں 80 فیصد لوگ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف اپنے لیڈر کی پے درپے سزاؤں پر اس جماعت کے 80 لوگ بھی باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی اب پارٹی اور عمران خان سے عملی طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ تاہم وہ کسی اور جماعت کی حمایت کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار مزمل سہروری نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت سوال کیا جا رھا ھے کہ جو یوتھئے تین عمران خان کی سزاؤں پر نہیں نکلے۔ کیا وہ ووٹ ڈالنے نکل پڑیں گے۔لیکن لگتا نہیں کہ یہ لوگ صرف آٹھ فروری کا انتظار کر رہے ہیں کہ تب ووٹ کے لئے نکلیں گے۔ اس کا فیصلہ تو آٹھ فروری کو ہی ہوگا۔ پھر اس پر کوئی بات ہو سکے گی۔ لیکن تحریک انصاف کے امیدوار بھی بہت ناامید ہیں۔انھیں بھی جو توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی ہے۔ انھیں گراؤنڈ میں وہ صورتحال نہیں مل رہی جس کی توقع تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سختیاں ہیں، پولیس کا خوف ہے۔ لیکن عوامی رد عمل اگر فطری ہو تو ریاست سامنے نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اگر آپ نے نو مئی کی طرز پر اپنے کارکنوں کے ساتھ پلاننگ کر کے کوئی رد عمل پیدا کرنے کی کوشش کی ہو تو ریاست اس کو شکست دے دیتی ہے کیونکہ یہ فطری نہیں غیر فطری رد عمل ہوتا ہے۔
مزمل سہروری کہتے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو سائفر ‘ توشہ کیس اور عدت میں نکاح کے کیس میں سزائیں کافی تاخیر سے ہوئی ہیں ۔ عمران خان ان سزاؤں کو تاخیر کا شکار کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ لیکن آخر میں الیکشن سے پہلے ہی سزائیں ہو گئی ہیں۔ اس لیے جو الیکشن سے پہلے سزائیں چاہتے تھے وہ کامیاب ہو گئے اور بانی تحریک انصاف شدید کوشش کے باوجود مکمل کامیاب نہیں ہوئے۔ اب تک عمران خان کو اکتیس سال قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم بشریٰ بیگم کو بھی دو مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن بشریٰ بیگم کو کسی جیل میں قید رکھنے کے بجائے بنی گالہ میں بانی تحریک انصاف کے گھر میں رکھا گیا ہے۔بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ مہربانی کس خوشی میں کی گئی ہے۔ اگر مریم نواز کو جیل میں عام قیدیوں کی طرح رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں عام قیدی کی طرح کیوں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی اسیر خواتین یاسمین راشد وغیرہ کو عام قیدیوں کی طرح جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی نے یہ درخواست نہیں کی ہے کہ بنی گالہ میں بشریٰ بی بی کو رکھا جائے گا۔لیکن قوانین کے مطابق سرکار کسی کے نجی گھر کو اس کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دے سکتی۔
مزمل سہروری کہتے ہیں کہ کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس کو تو سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی نجی گھر کو سب جیل اس کی مرضی کے بغیر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے بنی گالہ کو عمران خان کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہ مہربانی کیوں کی جا رہی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کو تین دن میں تین سزاؤں کے بعد بھی ملک میں کوئی غیر معمولی کیا معمولی رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ پورے ملک میں ایک احتجاج بھی نہیں ہوا۔ کہیں دس لوگ بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تین سزاؤں کو لوگوں نے کافی نارمل لیا ہے۔ شاید لوگ ذہنی طور پر ان سزاؤں کے لیے تیار تھے۔ ورنہ یہ انتخابات کا موسم تھا۔ رد عمل کے لیے بہترین وقت تھا۔ اگر کہیں چند ہزار لوگ بھی اکٹھے ہو جاتے تو انتخابی مہم بھی بن جاتی۔ عوامی رد عمل بھی سامنے آجاتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کیا یہی تحریک انصاف کی کل عوامی طاقت تھی جو اب جیل میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عوام ان

’’بلاول بھٹو سے متعلق مشہور افواہ کونسی اُڑی‘‘

کے ساتھ نہیں ہیں؟

Back to top button