بھٹو اور نواز شریف کو غلط سزائیں دینے والوں کا حساب کب ھو گا؟
پاکستان کی سپریم کورٹ بار بار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ھوئی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف سمیت ملک کے چھ وزرائے اعظم کو سزائیں دیں جو بعد میں غلط ثابت ھوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ میاں نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف اور عمران خان ۔۔ اس ملک میں آخر وزیراعظم پرائم منسٹر ہاؤس سے نکل کر سیدھے جیل کیوں جاتے ہیں اور آخر میں ان کے خلاف بنائے ہوئے مقدمے عدالتوں میں ثابت کیوں نہیں ہوتے؟ آخر کسی نے تو اس کا حساب دینا ہے‘ آخر کسی نے تو یہ حساب لینا ہے‘ ہم آخر کب تک اپنی حماقتیں تاریخ کے قبرستانوں میں دفن کرتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی عمر اس وقت26سال تھی‘ وہ محض ایک ایسی بیٹی تھی جس کے والد کو اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا تھا اور جیل مینول کے مطابق بیٹی کو والد سے آخری ملاقات کی اجازت دی گئی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو جیل کی سلاخوں کی دوسری طرف تھے جب کہ بیٹی برآمدے میں سلاخیں پکڑ کر کھڑی تھی‘ جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد بی بی کے پیچھے کھڑا تھا‘ بے نظیر بھٹو نے سپرنٹنڈنٹ سے التجا کی ’’پلیز تھوڑی دیر کے لیے دروازہ کھول دیں۔ میں اپنے والد کو آخری بار چھو کر دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ سپرنٹنڈنٹ نے آہستہ آواز میں جواب دیا ’’میڈم اس کی اجازت نہیں ‘‘ بے نظیر بھٹو کے منہ سے سسکی نکلی‘ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ سلاخوں کے اندر داخل کیے اور دیوانوں کی طرح بھٹو صاحب کے جسم پر پھیرنے لگیں‘ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوتے چھوتے فرش پر بیٹھ گئے۔ بیٹی سلاخوں سے باہر تھی اور باپ اندر‘ دونوں کی آنکھیں برسات کی طرح بہہ رہی تھیں یہاں تک کہ آخری ملاقات کا وقت ختم ہو گیا اور جیل کے عملے نے بی بی کو گھسیٹ کر بھٹو صاحب سے الگ کر دیا‘ اگلی صبح چار اپریل کو دو بج کرچار منٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے جرم میں پھانسی دے دی گئی جس میں وہ ملوث تھے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت تھا اور یوں اسلامی دنیا اپنے دور کے سب سے بڑے مسلمان لیڈر سے محروم ہو گئی۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ اس واقعے سے برسوں بعد جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو صاحب کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے دیا‘ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں لکھا‘بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی‘اسٹیبلشمنٹ نے ججوں پر دباؤ ڈالا اور جج نوکری بچانے کے لیے فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے جب کہ دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا حکومت نے جان بوجھ کر کیس کو کنفیوز کرنے کے لیے غلام حسین کی گواہی رکھی جس سے کیس خراب ہوا‘ ان دونوں ججوں میں سے ایک ملک کی سب سے بڑی عدالت کا چیف رہا تھا۔ لہٰذا ان کے اعتراف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی گواہی بن گئے‘ 1970‘ 1980ء اور 1990 کی دہائی کے بے شمار سیاست دانوں اور صحافیوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ بنایا تھا اور اس دور کی عدلیہ بھٹو کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئی تھی‘ وقت نے بھی بار بار یہ حقیقت سچ ثابت کی۔ ذوالفقار بھٹو بار بار بے گناہ اور عدلیہ اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ گناہ گار ثابت ہوئی لیکن آج تک ان ججوں کا حساب ہوا اور نہ اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کو بلا کر پوچھا گیا ’’تم لوگوں نے ایک بے گناہ شخص‘ ایک وزیراعظم اور ملکی تاریخ کے بڑے لیڈر کو پھانسی کیوں چڑھایا؟‘‘ وقت گزر گیا مگر کسی نے ذمے داروں کا تعین کیا اور نہ حساب کیا۔ وہ تمام لوگ بعدازاں پروموٹ ہوئے‘ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے‘ جنرل‘ آئی جی اور چیف جسٹس بنے‘ ریٹائر ہوئے اور طبعی زندگی گزار کر قبرستانوں کا رزق بن گئے‘ کیوں؟ آج سپریم کورٹ ’’بھٹو قتل کیس‘‘ سن رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ بھی ذمے داروں کو ذمے دار قرار دے سکے گی؟ جی نہیں‘ شاید یہ بھی ذمے داروں کو ذمے دار نہ کہہ سکے‘شاید یہ آج بھی ماضی کی بنیاد سیدھی نہ کر سکے۔
جاوید چودھری بتاتے ہیں کہ دوسری مثال میاں نواز شریف ہیں‘ یہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہے‘ انھیں جولائی 1993میں پہلی بار اقتدار سے ہٹایا گیا‘ ان پر کرپشن کے کیس بنائے گئے لیکن یہ کیس بعدازاں عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکے‘ دوسری بار انھیں جنرل پرویز مشرف نے ہٹایا‘ ان پر ہائی جیکنگ کا ایسا کیس بنایا گیا جس کی سزا عمر قید یا موت تھی‘ یہ خاندان سمیت مختلف جیلوں میں رہے اور پھر اس ’’ہائی جیکر‘‘ کو صدارتی معافی دے کر سعودی عرب بھجوا دیا گیا یوں ایک ہی رات میں ان کے تمام مقدمے ختم ہو گئے۔ وقت نے ثابت کیا وہ سارے کیس بھی جھوٹے تھے اور ان کا واحد مقصد جنرل پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدر بنانا تھا اور اس گندے کھیل میں عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئی‘ سپریم کورٹ نے نہ صرف جنرل مشرف کو یونیفارم میں صدر قبول کیا بلکہ انھیں آئین میں تبدیلی کرنے کا اختیار بھی دے دیا اور جنرل پرویز مشرف نے اس کے بعد ملک کو دہشت گردی کے دوزخ میں دھکیل دیا‘ 2017 میں ایک بار پھر یہ کھیل کھیلا گیا۔ نواز شریف کو کم زور کرنے کے لیے 2014 کا دھرنا ہوا‘ اسلام آباد پر یلغار ہوئی اور ملک کا بھرم اور معیشت دونوں تباہ کر دی گئی۔’’ڈان لیکس‘‘ جیسا بیانیہ بھی گھڑا گیا‘ آخر میں پتا چلا اس کا مقصد جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن تھی‘ پاناما اسکینڈل بھی اس پلان کا حصہ تھا‘ وہ دور ختم ہوا تو عمران خان لاؤ پلان شروع ہو گیا اور اس کے لیے فیض آباد دھرنا بھی ہوا اور عدلیہ بھی کھل کر استعمال ہوئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار احتساب عدالت جیسی جونیئر کورٹ کے لیے سپریم کورٹ کا نگران جج تعینات ہوا اور سارا کیس اس جج کی نگرانی میں طے ہوا‘ جے آئی ٹی بنائی گئی‘ جے آئی ٹی نے 10 والیم تیار کیے‘ یہ والیم نیب کے حوالے کیے گئے اور حکم دیا گیا آپ نے اس پر خط لگا کر اسے عدالت بھجوا دینا ہے‘لفافہ کھول کر بھی نہیں دیکھنا یوں میاں نواز شریف اورمریم نواز کو سزا دے کر جیل بھجوا دیا گیا۔
جاوید چودھری بیان کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق اور امین بھی قرار دے دیا‘ یہ تاریخ اسلام میں نبی اکرم ؐ کے بعد پہلے سرٹیفائیڈ صادق اور امین تھے‘ سپریم کورٹ نے بعدازاں میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا‘ پھر پارٹی قیادت سے محروم کیا اور آخر میں انھیں تاحیات نااہل کر دیا مگر اس کے باوجود عدالت کا غصہ نہ گیا اور یہ انھیں ہر دوسرے تیسرے ماہ رگیدتی رہی‘ عمران خان کے دور میں نیب اور عدالت ن لیگ کے ہر اس لیڈر کے خلاف کھل کر استعمال ہوئی جسے عمران خان ناپسند کرتے تھے حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ پر ہیروئن ڈال کر انھیں جیل میں پھینک دیا گیا۔ عدلیہ اور نیب کی اس مہربانی کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑا‘ ہم ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گئے اورپھر جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب سے العزیزیہ‘ فلیگ شپ اور ایون فیلڈ جیسے مقدموں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو نیب نے ہر مقدمے میں کہا ’’ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں‘‘ نیب کے وکلاء نے یہ اعتراف تک کیا‘ ہمیں یہ کیس بنا کر دیے گئے تھے اور ہم نے انھیں صرف پراسیس کیاتھا چناں چہ سوال یہ ہے۔ اس سارے پراسیس کا کیا فائدہ ہوا؟ آپ نے چلتے اور ترقی کرتے ہوئے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور بڑا سیاسی خاندان بھی تباہ کر دیا‘ آپ کو کیا ملا؟ اس بار بھی عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئی اور استعمال کے اس کھیل میں پانچ چیف جسٹس کے نام آئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس عمر عطاء بندیال اور مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن ۔ سوال یہ ہے اسلام آباد ہائی کورٹ سے نواز شریف کی آخری کیس (العزیزیہ اسٹیل مل) میں بھی باعزت بریت کے بعد یہ پانچ چیف جسٹس کہاں کھڑے ہیں؟ ان کی عزت اور وقار کو کس نے داؤ پر لگایا‘ اس کا ذمے دار کون ہے اور کیا ان سے پوچھا جائے گا؟ میرا نہیں خیال ان سے کوئی پوچھ سکے گا۔
جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ ذوالفقار بھٹو اور نواز شریف کے بعد تیسرے وزیراعظم عمران خان کا کیس اڈیالہ جیل میں چل رہا ہے‘ سائفر کیس میں اب ان کے خلاف گواہیاں ریکارڈ ہو رہی ہیں‘ 12 دسمبر کو بھی جیل میں سائفر کے ساتھ ساتھ توشہ خانہ کا کیس زیر سماعت تھا اور جیل ٹرائلز میں اب الیکشن کمیشن کی توہین‘190 ملین پاؤنڈز اور عدت میں نکاح کا ایشو بھی شامل ہو چکا ہے۔
کیا آج کوئی شخص یہ گارنٹی دے سکتا ہے یہ تمام مقدمے بھی کل کو ایون فیلڈ‘ فلیگ شپ اور العزیزیہ ثابت نہیں ہوں گے یا مستقبل کا کوئی جج جسٹس نسیم حسن شاہ یا جسٹس دراب پٹیل کی طرح یہ اعتراف نہیں کرے گا کہ ہم پر دباؤ تھا اور ہم نے اس دباؤ میں عمران خان کو سزائیں دیں یا مستقبل کی کسی عدالت میں جب ایف آئی اے‘ پولیس‘ جے آئی ٹی یا کمیشن کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا یہ مقدمے آپ نے بنائے تھے؟ اوریہ لوگ العزیزیہ کیس کی طرح انکار میں سر ہلا کر جواب دیں گے‘ ہمیں یہ مقدمے واٹس ایپ پر موصول ہوئے تھے۔ ہم نے صرف پراسیس کیے تھے اور اس وقت کا مورخ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہو جائے گا عدلیہ ایک بار پھر سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہوئی لیکن مجھے یقین ہے اس مرتبہ بھی کسی کو بلا کر نہیں پوچھا جائے گا‘ کسی کا حساب نہیں ہوگا کہ اس کے غلط فیصلوں کی ملک کو کتنی قیمت ادا کرنی پڑی‘ سوال یہ ہے کیا اس طریقے سے ملک چل سکے گا؟ نہیں چلے گا کیوں کہ یہ ماضی میں بھی نہیں چل سکا تھا‘ ملک میں اس وقت چھ سابق وزراء اعظم ججوں کی وجہ سے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ہم آخر کب تک اپنی حماقتیں تاریخ کے قبرستانوں میں
دفن کرتے رہیں گے