پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کے مد مقابل کیوں آ گئی؟
پاکستان میں آئندہ چند ماہ میں ممکنہ عام انتخابات سے قبل سیاسی ماحول میں تیزی آتی دکھائی دے رہی ہے جس کے بعد گزشتہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔ جہاں ایک طرف آئندہ عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کی تاریخ کے ساتھ سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب میں کسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ وہیں دوسری طرف پیپلز پارٹی 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے اعتراض اٹھا رہی ہے کہ اسے پنجاب میں لیول پلینگ فیلڈ میسر نہیں ہے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی جگہ چاہتی ہے جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے جس سے دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھ رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلیم بخاری گزشتہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں عداوت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ناراضی کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اسے پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مناسب مواقع نہیں دے رہی جبکہ اس پر سابق صدر آصف زرداری نواز شریف کو آمادہ کر چکے تھے۔ تاہم اب مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پیپلز پارٹی کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں پیپلز پارٹی کو کوئی رعایت نہیں دے رہی۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم چلانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں سیاسی گنجائش مزید کم ہو جائے گی۔ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بیانات دے رہے ہیں کہ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے ان کی جماعت کو پنجاب میں شکست دی تھی۔
کچھ مبصرین کے خیال میں پنجاب میں ووٹ کے حصول کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کرنا ہوگی جس سے وہ اپنی کامیابی کی راہ کسی حد تک ہموار کر سکتی ہے۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پنجاب میں ان کا ووٹر روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا مخالف رہا ہے جسے واپس لانے کے لیے مسلم لیگ (ن) مخالف بیانیہ اپنانا ہو گا۔ مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ 2018 میں انہیں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والا ووٹر اسی صورت واپس آ سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی بجائے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن جیسے رہنماؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ ان کے بیانات ان کی اپنی جماعت کے بجائے پی ٹی آئی کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سیاسی تلخی بڑھے گی تاہم انتخابات کے بعد ممکن ہے کہ دونوں پھر اتحادی بن جائیں۔سیاسی مبصر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ تلخ بیانات کے بعد یہ مشکل دیکھائی دیتا ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں اتحاد کریں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے جس کے اشارے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے نگراں حکومت میں بطور وفاقی وزیر کی صورت میں نظر آتے ہیں۔دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے تلخ بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ اس سے بدگمانی کو بڑھاوا ملا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان صورتِ حال کی سنگینی میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کی نظریں وزارتِ عظمی پر ہیں، جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کو تو امید ہے کہ پنجاب سے کامیابی کی صورت میں وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ وفاق میں حکومت بنا لیں گے۔تاہم پیپلز پارٹی کی صورتِ حال ایسی نہیں ہے۔ ان کو سندھ کے علاوہ کسی صوبے میں خاطر خواہ نشستیں حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔مظہر عباس کے مطابق پیپلز پارٹی کو یہ بھی شکوہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ سے اپنی قربتیں بڑھا رہی ہے جس کی مثال ان کی حکومت کے دور کے بیوروکریٹس کا اہم عہدوں پر تقرر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات کے
پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کے مد مقابل کیوں آ گئی؟
بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دوبارہ اتحاد کی صورت اکھٹی ہوں۔