سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران کے سازشی بیانیے کے لیے دھچکہ
قومی اسمبلی بحال کرنے کے کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو عمران خان کے سازشی بیانیے کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف اپنے بیرونی سازش کے بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے شواہد نہیں دے پائی۔
چیف جسٹس بندیال نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت نے آئین کے تحفظ کی ڈیوٹی کے تحت 3 اپریل کو اس معاملے پر از خود نوٹس لیا جس کی وجہ ڈپٹی سپیکر کا وہ قدم تھا جس میں انھوں نے آئینی اختیارات کی خلاف ورزی کی۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کرنے کا مختصر فیصلہ سنایا تھا جس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی وجہ سے اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہو سکی اور عدالت نے ملک میں آئین کے تحفظ کے لیے قدم اٹھایا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کو غیر آئینی طور پر تحلیل کرنے کے اعلان نے عوام کو غیر قانونی طور پر عام انتخابات کی طرف دھکیل دیا اور ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہوا جس نے ہر شہری کو متاثر کیا۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں متنازع غیر ملکی مراسلے پر مفصل انداز میں بات کی گئی ہے۔ عدالت کے مطابق اس وقت کی حکومت نے کارروائی کے دوران اس سائفر کا مکمل متن کورٹ کو نہیں دکھایا البتہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے حق میں دیے جانے والے دلائل میں اس سائفر کے چند حصے پیش کیے گئے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ ’ہم حکومتی وکیل کی جانب سے سائفر کا مکمل متن ظاہر نہ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں کیوں کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بھی اس کے متن کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اور اسے عدالت کے سامنے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے دفاع میں استعمال کرنا غیر مناسب ہوتا۔ عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اس سائفر کا تعلق سفارتی تعلقات اور قومی سلامتی امور سے جڑا ہے۔ ان معاملات پر ایگزیکٹیو کو پالیسی اور سیاسی ضروریات کے تحت ردعمل دینا ہوتا ہے۔
عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے دفاع میں نیشنل سکیورٹی کے نکتے کو ثابت کرنے کے لیے شواہد کی ضرورت ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ قومی سلامتی امور پر حکومتی فیصلوں کا جائزہ لینے کا محدود عدالتی اختیار موجود ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سائفر کا متن بنچ کے سامنے نہیں رکھا گیا اور نہ ہی ان ممبران قومی اسمبلی کو دیا گیا جن پر پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ عدالتی بنچ یا قومی اسمبلی کو کوئی ایسے شواہد بھی پیش نہیں کیے گئے جن میں سازش کا حصہ بننے والے ممبران کے نام ہوتے یا پھر دیگر ممبران قومی اسمبلی پر تحریک عدم اعتماد کا حصہ بننے کے لیے دبائو یا کسی اور کسی قسم کی کوشش کے ثبوت ہوتے۔
عدالتی فیصلے میں اہم ترین نکتے کے مطابق ’ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں معاملے کی انکوائری کی تجویز ثابت کرتی ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے اعتراف کیا کہ ان کو بیرونی سازش سے متعلق جو مواد دیا گیا وہ یا تو نا مکمل تھا، یا پھر سازش کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھے۔‘
عدالت نے لکھا ہے کہ سائفر 7 مارچ 2022 کو موصول ہونے کے باوجود عمران خان حکومت نے اس معاملے پر کوئی تفتیش نہیں کروائی اور نہ ہی 28 مارچ اور 31 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس کے متن کا کوئی حوالہ دیا گیا۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں یہ معاملہ وفاقی وزیر قانون نے پہلی بار 3 اپریل 2023 کو تب اٹھایا جب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق 2 اپریل کو حکومت کی جانب سے مبینہ بیرونی سازش کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ بھی یہ اشارہ کرتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے نیشنل سکیورٹی وجوہات پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ کے لیے شواہد ناکافی تھے۔
آئین شکنوں پر غداری کے مقدمات چلنے چاہئیں
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’ہمارے سامنے مبینہ سازش کے بارے میں صرف وہی معلومات ہیں جو ڈپٹی سپیکر کی رائے اور خدشات کی شکل میں سامنے آئیں لیکن ان کی رولنگ یا اس کی وجوہات میں انھوں نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ سائفر میں یہ ثابت ہوتا ہے اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کسی غیر ملکی ریاست کے ساتھ مل کر وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔‘ عدالتی فیصلے کے مطابق تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے جڑے مراسلے کے متن اور اثرات پر قومی اسبلی میں بحث کروائیں لیکن انھوں نے قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو سنے بغیر، اور عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بنا ہی وفاقی وزیر کے الزامات پر مشتمل بیان کی بنیاد پر اسے مسترد کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے نہ صرف ڈپٹی سپیکر نے آئین کے آرٹیکل 95 کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا بلکہ آرٹیکل پانچ پر بھی رولنگ دے دی جو ان کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر تھا۔ عدالت کے مطابق یہ طے شدہ قانون ہے کہ عدالتیں حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، صرف قیاس آرائی پر نہیں۔ عدالت نے لکھا کہ کورٹ سے ملکی خود مختاری اور قومی سلامتی کے دفاع میں از خود نوٹس لینے کی درخواست کی کوئی قانونی نظیر موجود نہیں اور شواہد کی غیر موجودگی میں عدالت ایسی کسی انکوائری کا اختیار بھی نہیں رکھتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں سائفر پر لکھا ہے کہ ’یہ بات نوٹ کی جائے کہ جس وقت ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی، اس وقت تک انھوں نے سائفر کا متن نہیں پڑھا تھا کیوں کہ یہ کوڈڈ تھا۔ لہذا ہم حیران ہیں کہ سائفر کا متن پڑھے بغیر ہی ڈپٹی سپیکر کو کیسے معلوم ہوا کہ کوئی سازش ہوئی ہے اور کس نے کی ہے؟‘ عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ غیر قانونی تھی۔