بلا چھن جانے کے بعد تحریک انصاف الیکشن کیسے لڑے گی؟

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کر دیا ہے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی ہے۔الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ’بلّے‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ فیصلے کے نتیجے میں بیرسٹر گوہر خان پارٹی کے چیئرمین بھی نہیں رہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی ٹیم کو الیکشن میں بلے کے بغیر کھیلنا ہوگاالیکشن کمیشن کےفیصلے کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتی۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہرعلی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جن میں گوہر خان کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا تھا

اس فیصلے کے بعد جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے وہ یہی ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا اور آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پارٹی کے پاس کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسے لندن پلان کا حصہ قرار دیا ہے۔ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ ’لاڈلہ سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف اور بلے کی موجودگی میں وہ انتخاب نہیں جیت سکتا۔ بیٹ ابھی مرا نہیں بلکہ بیٹ زندہ ہے اور ہم آٹھ فروری کا الیکشن جیتیں گے۔‘ اپنے ردعمل میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہمیں اس سازش کا علم تھا۔ ہم ہائی کورٹ سے رجوع تو کریں گے اور ٹکٹ جمع کروانے کی تاریخ سے پہلے اپنا نشان واپس لے لیں گے لیکن ہائی کورٹ کو خود بھی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے۔‘

تاہم دوسری طرف سیاسی اور آئینی ماہرین الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا سیٹ بیک قرار دے رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے۔ ہائیکورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ آیا تو بلے کا نشان بحال ہوجائے گا جبکہ ہائیکورٹ سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں پی ٹی آئی کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا آپشن موجود رہے گا۔

ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ کے مطابق ’یقیناً یہ تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ہے اور وہ اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔‘’تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس وقت پارٹی کا کوئی سربراہ بھی موجود نہیں۔ تحریک انصاف چاہے تو وہ اس فیصلے کو آئین کے تحت ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر مقررہ وقت میں تحریک انصاف کو ریلیف نہیں ملتا تو ایسی صورت میں اُنہیں آزاد امیدوار کھڑے کرنا پڑیں گے اور ضروری نہیں ہے کہ ہر حلقے میں انہیں ایک جیسا انتخابی نشان ملے، لہٰذا تحریک انصاف کا ووٹر تذبذب کا شکار ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے اس فیصلے کو تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کے پاس اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘’اگر اعلٰی عدلیہ سے بھی انہیں ریلیف نہیں ملتا تب بھی تحریک انصاف کے پاس ایک اور آپشن موجود ہے کہ وہ بلے کے علاوہ کسی اور انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ تحریک انصاف کسی غیر معروف سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے اور ان کا انتخابی نشان اپناتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے گی۔‘’اس سے اگرچہ ان کے پاس بلے کا انتخابی نشان نہیں ہوگا، تاہم پورے ملک میں وہ اپنے ووٹرز کو ایک ہی انتخابی نشان پر مہر لگانے کا کہہ سکتے ہیں۔‘ تاہم احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’13 جنوری تک انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں اس لیے تحریک انصاف کے پاس ابھی کافی وقت ہے کہ وہ اعلٰی عدلیہ سے جا کر ریلیف حاصل کرے اور قوی امکان ہے کہ انہیں وہاں سے ریلیف مل بھی جائے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کا ڈھانچہ ابھی موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان کی صرف الیکشن کمیشن سے ان لسٹ ختم ہوئی ہے جس وجہ سے انہیں انتخابی نشان نہیں ملے گا۔‘ احمد بلال محبوب کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ اپنی کسی اتحادی جماعت کا ٹکٹ اپنے امیدواران کو جاری کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی اپنی کسی اتحادی جماعت کا ٹکٹ اپنے امیدواروں کو آلاٹ کر دیے تو ووٹرز کے لیے یہ ملک بھر میں ایک نشان پر مہر لگانے کی مہم چلائی جاسکتی ہے دوسری صورت میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو یکساں نشان آلاٹ نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابی نشانات کے ساتھ حتمی فہرست 13 جنوری کو شائع کرے گی، پی ٹی آئی کے پاس 13 جنوری سے قبل

نورعالم خان کا جے یو آئی میں شمولیت کا فیصلہ

عدالت سے ریلیف لینے یا کوئی اور حکمت عملی اپنانے کا وقت موجود ہے۔

Back to top button