زیارت سے اغوا ہونے والا فوجی افسر کس نے قتل کیا؟

13 جولائی کو بلوچستان کے زیارت شہر سے اغوا ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا کا ڈراپ سین ان کے بہیمانہ قتل پر ہوا ہے جسے بلوچ عسکریت پسندوں کی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ نامعلوم افراد نے جمعرات کو زیارت سے دو افراد کو اغوا کر لیا تھا۔بلوچستان حکومت نے ابتدا میں اسے دو سیاحوں کے اغوا کا واقعہ قرار دیا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اغوا ہونے والوں میں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کوئٹہ کے ایک سینئر افسر بھی شامل تھے جن کے قتل کی تصدیق محکمہ داخلہ بلوچستان نے کر دی ہے۔

اس سے پہلے اغوا کے فوراً بعد بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یا بی ایل اے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فوجی افسران اسکی تحویل میں ہیں جبکہ اس بارے میں تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔ اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اغواہونے والے دونوں افراد فوجی افسران تھے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور مشیر برائے داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ انہوں نے ‘سیاحوں’ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ان کی فوری طور پر بازیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق یہ افراد اپنے خاندان کے ہمراہ سیر کرنے کے لیے زیارت گئے تھے لیکن اغوا کاروں نے دونوں فوجی افسران کو اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا اور خاندان کے باقی افراد کو جانے دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز حکومت بلوچستان کی جانب سے وزیر اعلیٰ اور مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے واقعے کے بعد جاری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کا یہ واقعہ ضلع زیارت کے علاقے ورچوم میں پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق اغوا کی رات کچھ مسلح افراد زیارت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی گاڑیوں کو روک رہے تھے۔ انہیں میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کی فیملی کی گاڑی بھی شامل تھی۔ ان کی گاڑی کو روکنے کے بعد ڈی ایچ اے کے افسر کو مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ان کے خاندان کو چھوڑ دیا گیا۔ اغوا کار انھیں اس راستے سے نامعلوم مقام کی جانب لے گئے جو کہ مانگی ڈیم کی جانب جاتا ہے۔

پٹرول ساڑھے18، ڈیزل40.54 روپے لٹر سستا کر دیا

اس واقعے کے بعد فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے جنھوں نے مغوی کے خاندان کو زیارت پہنچانے کے انتظامات کیے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ جب بلوچستان کی ایک اعلیٰ شخصیت سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے افسر سمیت دو افراد کو اغوا کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے دوسرے شخص ڈی ایچ اے افسر کے ساتھی تھے جو ان کے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ اغوا ہونے والے دوسرے فرد کی شناخت کے حوالے سے تاحال سرکاری حکام کی جانب سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔

ایک اہم سرکاری ادارے کے اہلکار نے بھی ڈی ایچ اے کے افسر کے اغوا کی تصدیق کی جسے بعد میں قتل کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ زیارت کوئٹہ سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں صنوبر کے قدیم جنگلات میں سے ایک بڑا جنگل بھی واقع ہے۔ اہم سیاحتی مقام ہونے کے باعث لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد عید اور دیگر تعطیلات میں سیر و سیاحت کے لیے اس علاقے کا رخ کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اغوا ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل لئیق بھی اپنے خاندان کے ہمراہ اسی علاقے کی سیر کو نکلے تھے۔

اہم بات یہ ہے کہ عمومی طور پر زیارت کا شمار بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں میں کیا جاتا ہے لیکن ماضی میں یہاں چند پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ریزیڈینسی پر حملے کا واقعہ بھی شامل ہے۔ جون 2013 میں اس ریزیڈینسی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ آرمی آفیسر کے اغوا اور قتل کے واقعے کی ذمہ داری بھی بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کرلی ہے۔

دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے ایک بہادر افسر کو بزدلانہ طریقے سے شہید کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’آرمی افسر کا اغوا اور انہیں جان سے مارنے کا مقصد شہر میں وحشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ لیکن دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اپنے ناپاک عزائم میں ناکامی ہو گی۔‘ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے دہشت پیدا کرنے والوں کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ بہادر سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران کو ایسی بزدلانہ حرکتوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعے میں ملوث عناصر جلد انجام تک پہنچائے جائیں گے۔

Back to top button